رسائی کے لنکس

چھپ کر آنے والے چند چوہوں کی موجودہ 10 لاکھ آبادی، دیوہیکل نایاب پرندے کیسےہڑپ کرجاتی ہے؟


میرین جزیرہ تقریباً 30 منفرد اقسام کے آبی پرندوں کا گھر ہے جن میں ایک نایاب پرندہ الباٹراسز بھی شامل ہے۔یہ پرندہ جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو وہ 10 فٹ تک پھیل جاتے ہیں۔
میرین جزیرہ تقریباً 30 منفرد اقسام کے آبی پرندوں کا گھر ہے جن میں ایک نایاب پرندہ الباٹراسز بھی شامل ہے۔یہ پرندہ جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو وہ 10 فٹ تک پھیل جاتے ہیں۔
  • انٹارکٹیکا کا ایک سرد، ویران اور چھوٹا جزیرہ میرین نایاب آبی پرندوں کا مسکن ہے۔
  • دو سو سال قبل اس ویران جزیرے میں چند چوہے ماہی گیروں کی کشتیوں میں چھپ کر پہنچے تھے۔
  • اس وقت جزیرے میں چوہوں کا اندازہ دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
  • چوہوں کی خوراک آبی پرندے ہیں جن پر وہ لشکر کی صورت میں حملہ کر کے قابو پا لیتے ہیں۔

خوبصورت اور کم یاب آبی پرندوں کی نسلوں کو اب تک زیادہ تر خطرہ انسان سے تھا جو سردیوں کے موسم میں لمبی پرواز کے بعد آنے والے پرندوں کو شکار کر لیتے تھے، مگر اب یہ خطرہ پرندوں کے آبائی مسکن کے اندر پہنچ گیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قطبی خطے کے ایک سرد جزیرے میں چوہے پرندوں کو مار کر کھا رہے ہیں۔

دنیا کے انتہائی سرحد خطے انٹارکٹیکا کے اس دور افتادہ اور غیر آباد جزیرے کا نام میرین ہے۔ یہ جزیرہ کم یاب نسل کے آبی پرندوں کا آبائی مسکن ہے۔ یہاں تقریباً پرندوں کی 30 نسلیں آباد ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جزیرے میں چوہوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ پرندوں کو ہڑپ کر کے ان کی کئی نسلوں کا دنیا سے خاتمہ کر دیں گے۔

اس دور افتادہ جزیرے میرین کا رقبہ صرف 115 مربع میل (297 مربع کلومیٹر) ہے۔یہاں کا موسم شدید سرد ہے۔ جزیرے میں کثرت سے مینہ برستا ہے اور برف پڑتی ہے۔ آتش فشانی پہاڑوں سے بنے اس جزیرے کے مرکزی حصے کی بلندی 3900 فٹ کے قریب ہے اور یہ آبی پرندوں کا ایک بڑا اور قدیم مسکن ہے۔

میرین جزیرے کا ایک منظر، فائل فوٹو
میرین جزیرے کا ایک منظر، فائل فوٹو

چوہے اس جزیرے میں نئے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ تقریباً 200 سال قبل ان ماہی گیروں کی کسی کشتی میں چھپ کر وہاں پہنچے جو وہیل کی تلاش میں ان یخ پانیوں میں جاتے تھے اور اس جزیرے پر عارضی پڑاؤ کرتے تھے۔ چوہے بھی انہی کے ساتھ چپکے سے جزیرے پر اتر گئے۔ ماہی گیر تو چلے گئے لیکن چوہے وہیں رہ گئے۔

چوہوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے اور زندہ رہنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی نسل میں انتہائی تیزی سے اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چوہے خود کو موسم اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فائل فوٹو
چوہے خود کو موسم اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فائل فوٹو

ماہی گیروں کے جانے کے بعد میرین پر چوہوں کو جب پیٹ بھرنے کو کچھ اور نہ ملا تو انہوں نے اپنے سائز سے کئی گنا بڑے پرندوں پر حملے شروع کر دیے اور انہیں مار کر خود بھی کھانے لگے اور اپنے بچوں کا پیٹ بھی پالنے لگے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میرین جزیرہ تقریباً 30 منفرد اقسام کے آبی پرندوں کا گھر ہے جن میں ایک نایاب پرندہ الباٹراسز بھی شامل ہے۔ یہ پرندہ جب اپنے پر پھیلاتا ہے تو وہ 10 فٹ تک محیط ہو جاتے ہیں۔

ننھا چوہا، اپنے مقابلے میں کئی گنا بڑے اور دیو ہیکل پرندوں کا شکار کھیلتا ہے اور انہیں مار گراتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چوہے کی کامیابی کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان پرندوں کو اپنے بچاؤ کا طریقہ نہیں آتا اور شاید اس لیے بھی وہ اپنے تحفظ سے غافل رہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سے جانور بھلا انہیں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ دشمن ابھی نیا ہے۔

اپنے سے کئی گنا بڑے پرندے کو گرانے کے لیے چوہے پرندے کے قریب چھپ جاتے ہیں اور پھر لشکر کی شکل میں اس پر اجتماعی حملہ کرتے ہیں جس سے اسے سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا۔

میرین آبی پرندوں کا اہم مسکن ہے۔ فائل فوٹو
میرین آبی پرندوں کا اہم مسکن ہے۔ فائل فوٹو

ماہرین کہتے ہیں آبی پرندوں کو چوہوں سے لاحق شدید خطرے کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے میرین کا موسم اتنا سرد نہیں رہا جتنا کہ 18 ویں صدی میں اس وقت تھا، جب چوہے وہاں پہنچے تھے۔

دو صدی قبل کے برفانی طوفانوں اور یخ ہواؤں کے جھکڑوں سے بچ نکلنے والے چوہوں کے لیے متعدل ہوتا ہوا موسم افزائش نسل کے لیے بہت ساز گار ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ایک چوہیا 60 دن میں جوان ہو کر بچے پیدا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور ہر بار وہ سات سے آٹھ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ اور سال بھر میں اوسطاً پانچ سے چھ بار بچوں کوجنم دیتی ہے۔

میرین میں اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس چھوٹے سے جزیرے میں ہر طرف چوہے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے ان آبی پرندوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے جو ہزاروں برسوں سے اس علاقے کو اپنے مسکن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جزیرے میں چوہوں کی آبادی کا تخمینہ دس لاکھ ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ نایاب آبی پرندوں کو بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ چوہوں سے نجات حاصل کی جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ 297 مربع کلومیٹر کے جزیرے میں، جو غیر آباد بھی ہے اور جہاں آمد و رفت کے ذرائع بھی نہیں ہیں، چوہوں کو مارا کیسے جائے۔

انٹارکٹیکا کا جزیرہ میرین پر آبی پرندوں کا ایک جوڑہ۔ فائل فوٹو
انٹارکٹیکا کا جزیرہ میرین پر آبی پرندوں کا ایک جوڑہ۔ فائل فوٹو

چوہوں سے چھٹکارے کے لیے ’ماؤس فری میرین پراجیکٹ‘ ہے، یعنی ’چوہوں سے پاک میرین‘ کے نام سے ایک منصوبہ سامنے لایا گیا ہے۔

اس پر اجیکٹ کے منیجر ڈاکٹر ایٹن وولفرڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم چوہوں کے خاتمے کے لیے ہیلی کاپٹروں سے جزیرے میں چوہے مار گولیاں گرائیں گے۔ اس پراجیکٹ میں چار سے چھ ہیلی کاپٹر استعمال کیے جائیں گے اور تقریباً 550 ٹن چوہے مار گولیاں جزیرے میں پھیلائی جائیں گی جس کے لیے جی پی ایس سے مدد لی جائے گی۔ انہیں توقع ہے کہ زہر کی یہ مقدار میرین میں چوہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہو گی۔

وہ اس پراجیکٹ کو بہت تیاری اور احتیاط کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر ایک بھی چوہیا زندہ بچ نکلی تو چند برسوں میں جزیرہ پھر سے چوہوں سے بھر جائے گا۔

چوہے طوفانی موسم میں بھی زندہ رہنے کا طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ فائل فوٹو
چوہے طوفانی موسم میں بھی زندہ رہنے کا طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ فائل فوٹو

وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم چوہے ختم نہ کر سکے تو وہ اگلے 50 سے 100 برسوں میں جزیرے سے پرندوں کی اکثر نسلوں کو ختم کر دیں گے۔

چوہوں کے خاتمے کے لیے ایک خصوصی زہر استعمال کیا جائے گا جس سے پرندوں یا جزیرے کی دیگر جنگلی حیات کو نقصان نہیں ہو گا اور اس زہر کا ماحول پر بھی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس پراجیکٹ پر اخراجات کا تخمینہ ڈھائی کروڑ ڈالر ہے جس کا زیادہ تر حصہ جنوبی افریقہ کی حکومت فراہم کرے گی، کیونکہ یہ جزیرہ اسی کی ملکیت ہے۔

ماہرین ماضی میں بھی اس جزیرے سے چوہوں کے چھٹکارے کے لیے ایک تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ 1940 کے عشرے کی بات ہے۔ چوہوں سے مقابلے کے لئے پانچ بلیاں جزیرے میں چھوڑی گئیں، مگر چوہوں کی تعداد میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ بلیوں نے چوہے مارنے کی بجائے پرندوں کو کھانا شروع کر دیا ہے۔

میرین پر چوہوں کے خاتمے کے لیے بلیاں چھورنے کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ فائل فوٹو
میرین پر چوہوں کے خاتمے کے لیے بلیاں چھورنے کا تجربہ ناکام رہا ہے۔ فائل فوٹو

1970 کی دہائی میں جزیرے میں بلیوں کی تعداد بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ چکی تھی اور پرندوں کا گوشت انہیں اس قدر پسند تھا کہ وہ ہر سال پانچ لاکھ کے قریب پرندے مار کر ہڑپ کر رہی تھیں۔ بلیوں سے پرندوں کی جان چھڑانے کے لیے ماہرین کو وہاں فلائن فلو کا وائرس پھیلانا پڑا۔

کچھ ماہرین ماضی کے تجربے کی روشنی میں مجوزہ پراجیکٹ پر بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG