باٹم بنگ کی ایک مصروف سڑک کی دونوں جانب بانس اور ٹین کے کچے پکے سٹال نظر آتے ہیں۔ کئی سٹالوں کے سامنے کوئلے دہک رہے ہیں اور ان پر چوہے باربی کیو کیے جا رہے ہیں۔ یہ اس شہر کی سب سے مشہور ڈش ہے۔ یہاں ہر وقت گاہکوں کا ہجوم نظر آتا ہے جن میں ایک بڑی تعداد سیاحوں کی بھی ہوتی ہے۔
کمبوڈیا کے مغرب میں واقع باٹم بنگ ملک کا تیسرا بڑا شہر اور ایک اہم سیاحتی مرکز ہے۔ یہاں قدیم دور کی کئی یادگاریں اور تاریخی مندر موجود ہیں۔ دو لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں دو یونیورسٹیاں بھی ایک عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ لیکن کوئلوں پر بھنے ہوئے چوہوں کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ اس علاقے میں 1970 کے عشرے میں متعارف ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئی۔
اس کی مقبولیت میں زیادہ حصہ قیمت کا بھی ہے۔ ایک بھنا ہوا چوہا 25 سینٹ سے ایک ڈالر تک میں مل جاتا ہے۔ قیمت کا تعین اس کے سائز اور وزن پر ہوتا ہے۔
چوہے کھانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ کمبوڈیا میں 1970 کے عشرے میں بدحالی، بدامنی اور قتل و غارت کے باعث خوراک کی شدید قلت تھی۔ بحران کے ذمے دار خمروج کمیونسٹوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ زندہ رہنے کے لیے مینڈک، چوہے اور چھوٹے سائز کے ایسے جانور کھانے کی عادت ڈالیں جنہیں خریدنا نہ پڑے۔ شروع میں تو یقیناً لوگوں کو چوہے کھانے میں الجھن اور پریشانی ہوئی ہو گی لیکن جب سامنے موت کھڑی ہو تو چوہے بھی اچھے لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بھارت سے بھی یہ خبر آئی تھی وہاں کئی پس ماندہ علاقوں میں غریب ترین دلت کمیونٹی کے افراد اپنی خوراک کی ضروريات پوری کرنے کے لیے کھیتوں سے چوہے پکڑ کر کھاتے ہیں اور اسے گوشت کا نعم البدل سمجھتے ہیں۔
چین میں تو سانپ سمیت ہر طرح کے چھوٹے بڑے جانور کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ جب کہ فرانس میں مینڈک کا شمار مہنگی ترین ڈش میں ہوتا ہے اور صاحب حیثیت ہی اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ سمندر میں سینکڑوں قسم کے آبی جانور پائے جاتے ہیں جن میں سے کئی ایک تو ایسے ہیں انہیں دیکھ کر کراہت آتی ہے لیکن دنیا بھر کے اکثر ساحلی علاقوں میں انہیں بڑی رغبت اور شوق سے کھایا جاتا ہے۔
بات باٹم بنگ کے باربی کیو چوہوں سے چلی تھی۔ اسے وہاں خوانچہ فروش لیموں اور مرچوں سے بنی ہوئی چٹنی کے ساتھ خریدار کو پیش کرتے ہیں جنہیں وہ خوب چٹخارے لے کر کھاتے ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے باٹم بنگ سے گزرتے ہوئے مالس سے بات کی۔
جواں سال مالس کا اسٹال دوسروں کے مقابلے میں خاصا بڑا اور بہتر حالت میں ہے۔ اس کی دکان پر گاہکوں کا رش بھی نسبتاً زیادہ تھا۔
اس نے بتایا کہ چوہوں کی مانگ کافی بڑھ گئی ہے۔ چند سال پہلے وہ روزانہ چار پانچ کلو گوشت باربی کیو کرتی تھی، اب اسے 20 کلو سے زیادہ چوہے کوئلوں پر سیکنے پڑتے ہیں۔
کام کے بوجھ کا ذکر کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ میں دن بھر مصروف رہتی ہوں۔ تہواروں کے موقع پر تو مانگ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بڑے سائز کے 180 سے بھی زیادہ چوہے بک جاتے ہیں۔
رپورٹر نے متفکر لہجے میں پوچھا۔ کیا چوہے کھانے سے صحت پر تو کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔
مالس قدرے خفا ہوتے ہوئے بولی۔ کیوں برا اثر ہو گا۔ میں چاول کے کھیتوں سے چوہے منگواتی ہوں۔ وہ صاف ستھرے چاول کھاتے ہیں۔ اگر آپ چاول کھانے سے بیمار نہیں ہوتے تو چاول کھانے والے چوہوں سے آپ کی صحت کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس نے بڑے سائز کے دو چوہے چٹنی کے ساتھ پلیٹ میں رکھ کر ایک گاہک کو دیتے ہوئے کہا، مرغیاں تو الم غلم اور پتا نہیں کیا کچھ کھاتی رہتی ہیں۔ لیکن میرے چوہے صرف صاف ستھرے چاول کھاتے ہیں۔ میرے چوہے تمہارے چکن سے زیادہ اچھے ہیں۔
گاہک نے بھنے ہوئے چوہے پر سرخ مرچوں کی چٹنی لگاتے ہوئے بڑے زور سے سر ہلا کر مالس کی تائید کی۔