|
اسرائیل نے غزہ کے علاقے رفح میں حماس کے خلاف ممکنہ زمینی کارروائی پر امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے وفد واشنگٹن بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
اس سے قبل تل ابییب نے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ کی جانب سے ویٹو نہ کرنے کے خلاف احتجاجاً اپنے وفد کا دورۂ واشنگٹن منسوخ کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اسرائیلی وفد کے دورۂ واشنگٹن کی ابھی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ البتہ ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اسرائیلی وفد میں اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہینگبی اور اسٹرٹیجک افیئرز کے وزیرِ ران ڈرمر شامل ہوں گے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرن جین پیئر نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ دونوں اطراف کو قابل قبول ایک مناسب تاریخ تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
امریکہ تقریباً چھ ماہ کی جنگ میں اسرائیل کا سب سے مضبوط اتحادی رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں جنگ کے بارے میں تازہ ترین ووٹ سے قبل امریکہ نے اس طرح کی متعدد قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ تاہم اس ہفتے سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد پر ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے امریکہ کے مؤقف میں تبدیلی پر تنقید کی تھی اور اسرائیلی وفد کے طے شدہ دورۂ واشنگٹن کو منسوخ کر دیا تھا۔
اگرچہ اسرائیل نے اپنے وفد کا امریکہ کا دورہ منسوخ کیا لیکن اس کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ واشنگٹن میں موجود تھے جنہوں نے اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن اور وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کے ساتھ مذاکرات کیے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم کا مؤقف ہے کہ غزہ پر حماس کے کسی بھی کنٹرول کے خاتمے کے لیے رفح پر حملہ ضروری ہے۔ تاہم امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ رفح پر حملے کا مخالف ہے۔
واضح رہے کہ رفح بحیرۂ روم کے ساتھ مصر کی سرحد سے متصل ایک تنگ علاقہ ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہری عارضی خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ رفح میں قائم حماس کی چار بٹالین پر کسی بھی حملے سے قبل فلسطینیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دے گا۔ تاہم اس نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ وہ پناہ گزینوں کو کہاں بھیجے گا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔
فورم