|
امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی جانب سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن بھیجنے کا فیصلہ واپس لینا پریشان کن اور مایوس کن ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے اعتراف کیا ہے کہ سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کے امریکی فیصلے کے بعد نیتن یاہو نے اسرائیلی وفد واشنگٹن نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے اعلیٰ حکام کے درمیان منگل کو ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں امریکہ اپنا کیس پیش کرے گا۔ ان کے بقول اس میٹنگ میں نہ صرف اسرائیلی وزیرِ دفاع شریک ہوں گے بلکہ وہ امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن سے مذاکرات بھی کریں گے۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو غزہ جنگ بندی سے متعلق ایک قرارداد منظور کی ہے جس کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ البتہ امریکہ نے نہ تو ووٹنگ میں حصہ لیا اور نہ ہی اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کیا۔
امریکہ اس سے قبل غزہ جنگ پر سلامتی کونسل کی تین قرار دادیں ویٹو کرچکا ہے۔
سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ "امریکہ کی پوزیشن تبدیل ہونے کی روشنی میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیلی وفد واشنگٹن نہیں جائے گا۔"
غزہ کی صورتِ حال پر امریکی صدر جو بائیڈن سے تبادلہ خیال کے لیے اسرائیل کے وفد کو رواں ہفتے واشنگٹن آنا تھا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیرِ اعظم سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا اور رفح میں کسی بھی قسم کا آپریشن کرنے سے قبل ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
'یرغمالوں کی بازیابی کے ساتھ جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں'
جان کربی نے واضح کیا ہے کہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ووٹ کا مطلب پالیسی میں تبدیلی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی پوزیشن بالکل واضح ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یرغمالوں کی رہائی کے ساتھ جنگ بندی ہو۔
جان کربی کے مطابق اقوامِ متحدہ کی قرارداد کا اسرائیل یا حماس کا پیچھا کرنے کے لیے اسرائیل کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جان کربی پیر کو جس وقت میڈیا بریفنگ دے رہے تھے، دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے وزیرِ دفاع یواو گیلنٹ صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقات کر رہے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع نے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بلنکن نے انہیں امریکہ کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تاہم انہوں نے رفح میں زمینی کارروائی کی مخالفت کے عزم کو دہرایا۔
واضح رہے کہ مصر کی سرحد سے متصل علاقے رفح میں لگ بھگ 14 لاکھ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت کئی ملکوں نے رفح میں اسرائیل کے ممکنہ آپریشن کی مخالفت کی ہے اور اسے خطرناک قرار دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع کی امریکی ہم منصب سے آج (منگل) ہونے والی ملاقات سے قبل پینٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹ ریڈار نے کہا ہے کہ رفح پر چڑھائی بڑی غلطی ہو گی اور یہ کارروائی نہ صرف پناہ گزینوں کو پہنچنے والے نقصان کی صورت میں غلطی ہو گی بلکہ اس سے اسرائیل کی اپنی سیکیورٹی کمزور پڑ سکتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ رفح پر چڑھائی سے اسرائیل کمزور ہو گا اور عالمی سطح پر اس کی پوزیشن بھی متاثر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے دیگر طریقے موجود ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ وزیرِ دفاع آسٹن اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے اور ہم اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان جاری جنگ کو پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں 32 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کے کے اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد کو ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
فورم