|
بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پردیش میں اسلامی اسکولوں پر پابندی سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد روک دیا ہے۔ یہ بات اس مقدمے میں شامل وکلاء نے جمعے کے روز بتائی۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم ملک میں قومی انتخابات شروع ہونے سے کچھ دن پہلے سامنے آیا ہے جن میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری مدت کے لیے امیدوار ہیں۔
عدالت عظمیٰ، الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے اس حکم کو کئے گئے چیلنج کا جواب دے رہی تھی جس نے ریاست اتر پردیش میں، جہاں دو کروڑ چالیس لاکھ آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان ہے، مدارس کہلائے جانے والے اسکولوں کو چلانے والے 2004 کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ قانون آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہے، یہ ہدایت بھی دی تھی ان اداروں کے طلباء کو روایتی اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔
نیوز پورٹل، لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا، "ہمارا خیال ہے کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل تفصیلی طور پر غور طلب ہیں۔"
وکلاء نے کہا کہ اب اس معاملے کی سماعت جولائی میں ہو گی، اور اس وقت تک "سب کچھ معطل رہے گا"۔
بھارت کے وفاقی انتخابات کا عمل جون میں مکمل ہو گا۔
ریاست اتر پردیش میں بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے عدالت کے حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک"بڑی جیت" قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "ہم واقعی تقریباً 16 لاکھ (1.6 ملین) طلباء کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے اور اب یہ حکم ہم سب کے لیے انتہائی سکون لے کر آیا ہے۔"
مودی کے دس سال کے دور اقتدار میں، ان کی بی جے پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے ارکان پر بار بار اسلام مخالف نفرت انگیز تقریر کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
تاہم مودی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک موجود ہے، جو ان کے بقول سب کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس سے قبل کی رپورٹس کے مطابق بھارت میں مسلم ماہرین تعلیم نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے تحت ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست میں ہزاروں دینی مدارس کو مؤثر طریقے سے بند کر دیا جائے گا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کے اپنے فیصلے میں، اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ یہ بھارت کے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہے۔ اس نے حکم دیا کہ اتر پردیش میں اسلامی اسکول کے تمام طلباء کو "باقاعدہ" اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی، یا بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مسلم کمیونٹی کے طلباء کو ریگولرمرکزی دھارے کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گا اور مسلم معاشرے کو فائدہ پہنچے گا۔
لیکن مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں برسوں کی ان اصلاحات کو نظر انداز کیا گیا ہے جنہوں نے بھارت کے مدارس کو جدید بنا دیا ہے اور ان میں قومی سطح پر منظور شدہ نصاب متعارف کرایا ہے، جن میں فزکس، کیمسٹری، ریاضی، کمپیوٹر پروگرامنگ اور سوشل سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “ یہ عدالتی حکم بھارتی آئین کے آرٹیکل 29 اور 30 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو مذہبی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "مسلمانوں نے جدید مدارس کا دل و جان سے خیرمقدم کیاہے ، اور ہم نے ان مدارس سے تعلیم یافتہ طلباء کو سرکاری ملازم، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے جدید شعبوں کے ماہر بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے باوجود حکام مسلم کمیونٹی کی خواہشات اور مفادات کے خلاف تمام مدارس کو بند کر رہے ہیں۔"
عدالتی حکم سے بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کے تسلیم شدہ لگ بھگ 16,500 مدارس، ان کے ایک کروڑ 95 لاکھ طلبا اور ایک لاکھ اساتذہ متاثر ہوں گے۔ ان میں متعدد غیر مسلم طالب علم شامل ہیں جن میں سے بیشتر ہندو ہیں۔
مدرسے کے اساتذہ نے کہا کہ اس فیصلے کا اثر آخر کار یوپی کے تمام 25,000 تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ مدارس پر پڑے گا، جہاں 27 لاکھ طلباء کو ایک لاکھ 40 ہزار ٹیچرز پڑھاتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، “سپریم کورٹ نے بار بار جدید مضامین کے ساتھ جدید تعلیم پر زور دیا ہے، ایک ایسی تعلیم جو عالمگیر نوعیت کی ہو، جو ایک بچے کو اپنا مستقبل روشن بنانے اور اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے تیار کرتی ہے۔”
عدالت نے کہا کہ مدرسہ ایکٹ کے تحت مدارس کا نصاب "یقینی طور پر" اس نصاب کے مساوی نہیں ہے جو مرکزی دھارے کے اسکولوں میں طلباء کو پڑھایا جاتا ہے اور اس لیے مدارس میں دی جانے والی تعلیم نہ تو "معیاری" ہے اور نہ ہی "عالمگیر" نوعیت کی ہے۔
لیکن کئی تسلیم شدہ مدارس کے اساتذہ نے عدالت کے استدلال پر سوال اٹھاتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ تسلیم شدہ مدارس میں جدید تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور ان میں 2018 سے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ، یا NCERT کا ہدایت کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
NCERT وفاقی حکومت کا قائم کردہ ایک ادارہ ہے جو ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں تعلیمی نصاب وضع کرتا ہے اور اس کی نگرانی کرتا ہے۔
یوپی کے اسلامک مدرسہ ماڈرنائزیشن ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر اور بھارتی حکومت کی قومی مدرسہ ماڈرنائزیشن کنسلٹیٹیو کمیٹی کے رکن اعجاز احمد نے وی او سے بات کرتے ہوئے کہا، “یہ تمام جدید مدارس ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ، “غیر آئینی قرار دیے جانے سے، تمام تسلیم شدہ مدارس کو بند کر دیا جائے گا اور تقریباً 100,000 اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے۔”
یوپی کے ڈسٹرکٹ میرٹھ کے ایک جدید مدرسے میں سائنس ٹیچر, بابو رام نے، جو ہندو ہیں, بتایا کہ بھارتی مدارس 2009 سے کوالٹی ایجو کیشن فراہم کرنے سے متعلق وفاقی طورپر متعارف کرائی گئی اسکیم، SPQEM کے تحت اصلاحات کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ابتدائی طور پر 25,000 سے زیادہ اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے تھے۔
بابو رام نے وی او اے کو بتایا " حکومت نے مسلم کمیونٹی کی تعلیمی ترقی کے لیے، جدید مدارس متعارف کرائے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "ایس پی کیو ای ایم اسکیم بہت کامیاب رہی اور ان مدارس میں مسلمان بچوں کے داخلے میں اضافہ ہوا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ"مسلمان والدین روایتی طور پر جدید مدارس کو دیگر اسکولوں پر ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کے بچے باقاعدہ مضامین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم بھی حاصل کر سکیں ۔"
بابو رام نے کہا کہ "اگر مدرسے بند کر دیے گئے تو مسلمان طالب علموں کی اسکول چھوڑنے کی شرح میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔ حکام مدارس کو اس کے باوجود بند کر رہے ہیں کہ وہ اتنے ہی اچھے ہیں جتنے کہ باقاعدہ سکول- اس سے ہم ناانصافی کا شکار ہوں گے"
بھارت میں مسلمان طویل عرصے سے امتیازی سلوک کی شکایت کر رہے ہیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسلم مخالف جذبات میں 2014 میں اس کے بعد سے اضافہ ہوا ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ ہندو قوم پرست ایجنڈے کے ساتھ بر سر اقتدار آئی۔
لیکن مودی کی حکمران بی جے پی کے ایک سینئر رہنما آلوک واٹس نے اس خیال کو کہ پارٹی مسلم مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
انہوں نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا ، “بی جے پی مدارس کے خلاف نہیں ہے، لیکن اسے مسلمان بچوں کی بہبود کی فکر ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ “ بچوں کو مدارس سے ریگولر اسکولوں میں بھیجنا ایک ترقی پسندی پر مبنی اقدام ہے۔ اس سے بچوں کو جدید تعلیمی ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے بہتر مواقع ملیں گے۔”
آلوک نے کہا کہ "صرف ایک چیز جس سے ہمیں تکلیف ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب مدرسوں کے اساتذہ کی بڑی تعداد کا کیا ہو گا۔ اگر ان اساتذہ کو دوسرے ریگولر اسکولوں میں ضم کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔”
اس رپورٹ کےلیے معلومات رائٹرز اور وی او اے کے شیخ عزیز الرحمان کی فراہم کردہ ہیں۔
فورم