بھارتی ریاست اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدارس کے سروے کا فیصلہ کیا ہے جس پر مسلم تنظیموں اور سیاست دانوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ مسلم تنظیمیں اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے حکومت سے فیصلے کو واپس لینے پر زور دے رہی ہیں۔
عربی مدارس کے اساتذہ کی انجمن ’ٹیچرز ایسو سی ایشن مدارس عربیہ‘ کے جنرل سیکریٹری دیوان صاحب زماں نے حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مدارس کے اساتذہ اور غیر اساتذہ کارکنوں کو فائدہ ہوگا۔
لیکن حکومت کے اس فیصلے پر غیر تسلیم شدہ یا غیر امداد یافتہ مدارس کے ذمہ داروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انہوں نے اسے مدارس کے انتظام و انصرام میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد مدارس سے دینی تعلیم کا خاتمہ کرنا ہے۔
اسی دوران ریاست آسام میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے مبینہ الزام کے تحت حکومت نے تین مدارس کو منہدم کر دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا الزام ہے کہ ان مدارس میں دہشت گرد سرگرمیاں جاری تھیں۔ جس مدرسے میں بھی ملک دشمن سرگرمیاں پائی جائیں گی ان کو منہدم کر دیا جائے گا۔
مدارس کے انہدام کی کارروائی ریاست میں القاعدہ کی برصغیر شاخ اور انصار اللہ بنگلہ ٹیم جیسے گروپوں سے مبینہ تعلق کے الزام میں 37 افراد کی گرفتاری کے بعد کی گئی۔ گرفتار شدگان میں مدارس کے اساتذہ اور مسجدوں کے ائمہ بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت ان مدارس پر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے جب کہ بلدیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ ان مدارس کی عمارتیں غیر محفوظ تھیں، ان میں بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا اور آتش زدگی اور دیگر حادثات سے نمٹنے کے ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
مسلم تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اترپردیش میں مدارس کے سروے کی مخالفت اور آسام میں دہشت گردی کے مبینہ الزام میں مدارس کے انہدام کی مذمت کی جا رہی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ آئین کو بالائے طاق رکھ کر کام کر رہی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ حکومت کے اس رویے کی مذمت کرتا ہے۔
بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے آسام میں تین مدارس کے انہدام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بنا کر مدارس کو منہدم کر رہی ہے اور ریاست سے باہر کے علما اور اماموں پر قانونی و انتظامی پابندی لگا رہی ہے جو قابلِ قبول نہیں ہے۔
اترپردیش کے جلال آباد میں واقع ایک معروف ادارے مدرسہ فلاح دارین میں عربی کے استاد مولانا شعیب عالم مفتاحی فلاحی کا کہنا ہے کہ اترپردیش اور آسام کی حکومتوں کے اقدامات کی مخالفت اور مذمت کی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اترپردیش حکومت کا یہ قدم غیر آئینی اور ناقابلَ قبول ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت چور دروازے سے مدارس کے انتظام و انصرام میں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق ان اداروں سے ملک میں اسلامی تشخص قائم ہے۔ حکومت اس تشخص کو ختم کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے مسلم تنظیموں اور مدارس کے ذمہ داروں سے اپیل کی کہ وہ اس قدم کی سختی سے مخالفت کریں۔
اسلامک سینٹر آف انڈیا لکھنؤ کے صدر اور ٹیلے والی مسجد کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے یو پی حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا آئینی حق حاصل ہے۔ ان مدارس میں 90 فی صد طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدارس ملک میں شرخ خواندگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے سروے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی۔
سیاسی جماعتوں نے بھی یوپی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اسے ’منی این آر سی‘ قرار دیا ہے۔
حیدرآباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کہا کہ حکومت کو نجی مدارس کے انتظام میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ مدرسہ بورڈ کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ان کے مطابق دستور کی دفعہ 30 اقلیتوں کو اپنے تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام کا حق دیتی ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کتنی بری بات ہے کہ جن مدرسوں نے ملک کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا اب ان کو شک و شبہہ کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب ملک آزادی کی 75 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کے اس قدم کا مقصد مسلمانوں کو ہراساں اور بدنام کرنا ہے۔
اترپردیش سے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مدارس کے سروے کا مقصد عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے تاکہ حکومت اس سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مدارس حکومت سے کوئی امداد نہیں لیتے، بلکہ از خود تمام انتظامات کرتے ہیں تو ان میں حکومت کو مداخلت کرنے کا کیا جواز ہے۔
ان کے مطابق ایک طرف حکومت تعلیم کا بجٹ کم رہی ہے اور دوسری طرف مدرسوں کو ہدف بنا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس حکومت نے گزشتہ پانچ برس میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی گرانٹس کم کر دی ہے جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کی بڑھا دی ہے۔
اترپردیش کی حزب اختلاف کی اصل جماعت سماجوادی پارٹی نے بھی مدرسوں کے سروے کے فیصلے کو مسلمانوں کو پریشان کرنے سے تعبیر کیا۔ پارٹی کے ترجمان راجیندر چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ ریاست میں تعلیمی نظام انتہائی خراب ہو چکا ہے۔ حکومت اس میں اصلاح کے بجائے ان مدرسوں کا سروے کرنے جا رہی ہے جو کہ حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں لیتے۔
ریاست کے وزیر مملکت برائے اقلیتی امور زاہد آزاد انصاری کا کہنا ہے کہ ’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ (این سی پی سی آر) کے مطابق طلبہ کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا جائزہ لینے کے مقصد سے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرے گی۔
سروے میں مدرسے کا نام، کس ادارے کے تحت چلتا ہے، عمارت نجی ہے یا کرائے کی، طلبہ اور اساتذہ کی تعداد، طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات، بشمول پینے کا صاف پانی، ٹوائلٹس اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں کی معلومات حاصل کی جائیں گی۔
وزیر مملکت نے یہ بھی کہا کہ ان مدارس کی خاتون اساتذہ کو ضابطے کے مطابق زچہ بچہ تعطیل اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی تعطیل دی جائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مقصد ان غیر تسلیم شدہ مدرسوں کو تسلیم کرنا ہے تو انہوں نے کہا کہ ابھی صرف سروے کیا جائے گا اور جلد کیا جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اترپردیش میں مدارس کی تعداد 16,461 ہے جن میں سے 560 کو ہی حکومت کی جانب سے مالی امداد دی جاتی ہے۔ البتہ گزشتہ چھ برسوں سے کسی نئے مدرسے کو حکومت کی امداد یافتہ مدارس کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔