بھارت کی ریاست اترپردیش(یوپی) کی حکومت نے مذہبی مدارس کی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے جو تحقیقات سے یہ پتا لگانے کی کوشش کرے گی کہ مدارس کو ملنے والے عطیات دہشت گردی کی سرگرمیوں میں تو استعمال نہیں ہو رہے۔
یوپی کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے مدارس کی فنڈنگ کا جائزہ لینے کےلیے انسداد دہشت گردی دستے (اے ٹی ایس) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل موہت اگروال کی سربراہی میں ایک تین رکنی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی ہے۔
ایس آئی ٹی کے دو دیگر ارکان میں محکمۂ اقلیتی فلاح و بہبود کے ڈائریکٹر جنرل جے ریبھا اور سائبر سیل کے ایس پی تروینی سنگھ بھی شامل ہیں۔ تفتیشی ٹیم اترپردیش نیپال سرحد پر واقع مدارس کی خصوصی جانچ کرے گی۔
تفتیشی ٹیم کے سربراہ موہت اگروال کے مطابق ہم اس بات کی تحقیقات کریں گے کہ غیر ملکی فنڈ کا استعمال کیسے ہو رہا ہے اور کیا وہ دیگر سرگرمیوں جیسا کہ دہشت گردی یا تبدیلیٔ مذہب کے کاموں میں بھی استعمال ہو رہا ہے یا نہیں۔ ان کے بقول، غٰیر ملکی عطیات حاصل کرنے والے مدارس کے اکاؤنٹس کی بھی جانچ کی جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست اتر پردیش میں 25 ہزار اسلامی مدارس ہیں۔ جن میں ساڑھے 16 ہزار ’اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘ میں رجسٹرڈ ہیں۔
حکومت کے اہل کاروں کے مطابق غیر ملکی چندے سے دہشت گردانہ سرگرمیوں اور تبدیلیٔ مذہب کی حوصلہ افزائی کی اطلاعات ملنے کے بعد مدارس کی فنڈنگ کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایس آئی ٹی کی جانب سے ان مدارس کو نوٹس جاری کرکے ’فارن ایکسچینج ارننگ اکاؤنٹ‘ (ای ای ایف سی) کے لین دین سے متعلق تفصیلات معلوم کی جائیں گی۔
ان کے مطابق تحقیقات کے بعد غیر ملکی چندہ حاصل کرنے والے مدرسوں کی ایک فہرست بنائی جائے گی اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کو کن ملکوں سے چندہ ملا ہے اور ان کا استعمال کہاں کہاں ہوا ہے۔
یوپی حکومت میں اقلیتی امور کے وزیر دھرم پال سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نیپال سرحد پر تقریباً چار ہزار مدارس ہیں جن میں سے بیش تر کو مستقل غیر ملکی چندہ ملتا ہے۔ گزشتہ سال کے سروے میں معلوم ہوا تھا کہ ایسے زیادہ تر مدارس ان پیسوں کا اکاؤنٹ فراہم کرنے میں ناکام رہے تھے۔
’مدارس تعاون کریں گے‘
اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید کا کہنا ہے کہ انھیں ایس آئی ٹی کی تشکیل کی اطلاع اخبارات سے موصول ہوئی ہے۔ لیکن اگر کوئی مدرسہ غیر ملکی چندہ حاصل کرتا ہے اور اخراجات کی کوئی تفصیل پیش نہیں کرتا تو اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ ان کے بقول:’’ میں سمجھتا ہوں کہ تمام مدارس اس معاملے میں تعاون دیں گے۔‘‘
ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایس آئی ٹی کی جانچ رپورٹ عام کی جائے تاکہ غیر ملکی چندہ لینے والے مدارس کی حقیقی تصویر لوگوں کے سامنے آئے۔
واضح رہے کہ اترپردیش اور نیپال کی سرحد پر سدھارتھ نگر، بہرائچ، سراوستی، بلرامپور، مہاراج گنج اور دیگر ایسے کئی اضلاع ہیں جہاں بڑے اسلامی مدارس واقع ہیں۔
سدھارتھ نگر ضلع کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ایک ذمے دار نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن مدارس کو اندرون ملک یا بیرون ملک سے چندہ ملتا ہے وہ تعلیم اور تعمیر پر خرچ ہوتا ہے کسی تخریبی سرگرمی میں نہیں۔ حکومت جانچ کرانا چاہتی ہے تو کرا لے۔
ان کے مطابق جب اس سے قبل ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی حکومت میں سینئر رہنما ایل کے آڈوانی وزیر داخلہ تھے تو انھوں نے بھی سرحدی علاقوں کے مدارس کی تحقیقات کروائی تھی اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی غلط کام نہیں پایا گیا تھا۔
ان کے مطابق مدرس کے ذمے داران کو بہت زیادہ چندہ نہیں ملتا۔ مدارس ملنے والی فنڈنگ کو کسی دوسری سرگرمی میں کیسے استعمال کریں کیوں کہ وہ ان سے بمشکل اپنے اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جن مدار س کو ’فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ‘ (ایف سی آر اے) کے تحت غیر ملکی چندہ ملتا ہے وہ ہر تین ماہ بعد چندے کی رقم، ملک اور مقصد کی تفصیل محکمۂ انکم ٹیکس اور وزارت داخلہ میں داخل کرتے ہیں اور سال پورا ہونے پر اخراجات کا گوشوارہ پیش کرتے ہیں۔
مدارس کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ان مدارس سے تعلیم مکمل کرنے والے متعدد افراد آئی اے ایس کا امتحان پاس کر چکے ہیں اور ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کو میڈیکل اور دیگر شعبوں میں بھی داخلہ ملتا ہے۔
’سب کی جانچ ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے‘
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ ہمارے مدارس کسی غیر قانونی یا تخریبی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔ ان کو جس مقصد سے چندہ ملتا ہے وہ اسی مقصد میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کے مطابق تمام اداروں پر یکساں قانون نافذ ہونا چاہیے۔ یعنی اگر سب کی جانچ ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر صرف مسلم اداروں کی شناخت کرکے ان کو پریشان کرنے والا معاملہ ے تو یہ قابلِ مذمت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کو ملنے والے فنڈ کا حساب کتاب ٹھیک رکھیں، ملکی قوانین کی پابندی کریں۔ان کے بقول، مسلمانوں کے ادارے ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے یہاں کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اس وقت کیوں ایسا قدم اٹھا رہی ہے؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کیوں کہ ہمیں اس کی نیت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
سماجوادی پارٹی کے ترجمان ڈاکٹر آشوتوش ورما نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو ہراساں کرنے کا ایک اور طریقہ ہے۔ پہلے حکومت نے تمام مدرسوں کاسروے کیا جس میں تقریباً 8000 مدارس غیر تسلیم شدہ پائے گئے۔
وہ حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ سروے کو 11 ماہ گزر گئے حکومت نے ان میں سے کتنوں کو رجسٹر کیا۔ اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ ان کو خود کو رجسٹر کرانے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔
ان کے مطابق ان مدرسوں کو رجسٹر کرنے کے بجائے اب حکومت نے ان کی جانچ کرنے کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ ان کے بقول اس کا مقصد اقلیتوں کے لیے کچھ نہ کر پانے کے معاملے سے توجہ ہٹانا ہے۔
خیال رہے کہ ریاستی حکومت نے رواں سال جنوری میں ضلع مجسٹریٹس کو ہدایت دی تھی کہ وہ سرحد پر واقع ان غیر تسلیم شدہ مدارس کی جانچ کریں جنھوں نے زکوۃ کو اپنا ذریعہ آمدنی بتایا ہے۔
دو ماہ تک چلنے والے سروے میں ایسے 8449 مدارس کی جانچ کی گئی تھی جو حکومت کے محکمۂ تعلیم میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
فورم