رسائی کے لنکس

غزہ میں جنگ کے چھ ماہ بعد اسرائیل کی تنہائی بڑھ رہی ہے


رفح میں ایک بے گھر خاتون اپنے خیمے سے باہر برتن دھو رہی ہے۔ غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی رمضان کے روزے بے گھری اور بے سروسامانی کی کیفیت میں رکھ رہی ہے۔ 5 اپریل 2024
رفح میں ایک بے گھر خاتون اپنے خیمے سے باہر برتن دھو رہی ہے۔ غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی رمضان کے روزے بے گھری اور بے سروسامانی کی کیفیت میں رکھ رہی ہے۔ 5 اپریل 2024
  • غزہ میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
  • سات بین الاقوامی امدادی کارکنوں کی ہلاکت نے اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کو بھی ناراض کر دیا ہے۔
  • چھ ماہ کی جنگ اور 10 ہزار جنگجوؤں کو ہلاکت کے اسرائیلی دعوے کے باوجود حماس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس لڑنے کی صلاحیت برقرار ہے۔
  • بائیڈن نے جمعے کو کہا ہے کہ اسرائیل سے جوکرنے کو کہا گیا تھا وہ کر رہاہے۔انہوں نےجمعرات کو نیتن یاہو کو انتباہ کیا تھا کہ امریکی معاونت غزہ کے شہریوں کے تحفظ پر منحصر ہے۔

غزہ میں اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے چھ ماہ بعد، ایک اسرائیلی فضائی حملے میں امدادی کارکنوں کے ایک گروپ کے ارکان کی ہلاکت کے بعد، سنگین انسانی بحران اور اس تنازع سے نکلنے کے واضح راستے کی عدم موجودگی، اسرائیل کو تیزی سے تنہائی کی جانب دھکیل رہی ہے۔تاہم صدر بائیڈن نے جمعے کو کہا کہ اسرائیل سے جوکرنے کو کہا گیا تھا(اب) وہ کر رہاہے۔

پیر کی رات ورلڈ سینٹرل کچن کے امدادی گروپ کے سات ارکان کی ہلاکت نے، جن میں سے چھ غیر ملکی تھے، اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کو بھی برہم کر دیا ہے، جس سے لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیل نے امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں میں فوج کی غلطی کے اعتراف کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ غیر ارادی واقعہ تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں برطانیہ، آسٹریلیا، پولینڈ، فلسطین اور دوہری شہریت کا ایک امریکی کینیڈین شہری شامل تھا۔

تاہم اسرائیل کی اس واقعے پرمعذرت نے بیرون ملک بڑھتے ہوئے اس دباؤ کو کم نہیں کیا جن میں برطانیہ، جرمنی یا آسٹریلیا جیسے وہ روایتی دوست ممالک بھی شامل ہیں، جہاں اب رائے عامہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔

اسرائیل سے جوکرنے کو کہا گیا تھا وہ کر رہاہے: بائیڈن

ورلڈ سینٹرل کچن کے کارکنوں کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن بھی ناراض ہیں، جن پر پہلے ہی اپنے حامیوں کی جانب سے جنگ بند کرانے کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وائٹ ہاوس نے جمعرات کو نیتن یاہو کے ساتھ ایک ٹیلی فون کال میں شہری نقصانات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اور نظر آنے والے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں امریکی حمایت کا تعین اسرائیل کے اقدامات سے ہو گا۔

تاہم بائیڈن نے آج جمعے کو کہا ہے کہ اسرائیل سے جوکرنے کو کہا گیا تھا وہ کر رہاہے۔انہوں نےجمعرات کو نیتن یاہو کو انتباہ کیا تھا کہ امریکی معاونت غزہ کے شہریوں کے تحفظ پر منحصر ہے۔

امداد تک رسائی میں اضافے کے اقدامات

بڑھتے ہوئے دباؤ کی صورت حال میں نیتن یاہو نے جمعے کے روز شمالی غزہ میں ایریز کراسنگ کو دوبارہ کھولنے، جنوبی اسرائیل کی اشدود بندرگاہ کے عارضی استعمال کے ساتھ ساتھ جنوبی غزہ میں کیرمین شالوم کراسنگ کے ذریعے اردن سے امداد تک رسائی بڑھانے کا حکم دیا ہے۔

چھ ماہ سے جاری جنگ نے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور وہاں کی 23 لاکھ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر پناہ کے لیے بھٹکنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے اب ان کا انحصار امداد پر ہے۔ انہیں رمضان کے مہینے میں، جب دنیا بھر میں مسلمان روایتی پکوانوں سے روزہ إفطار کرتے ہیں، تلخ اور تکلیف دہ مسائل سے گزرنا پڑا ہے۔

جنوبی شہر رفح میں ایک خیمے میں اپنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ مقیم 33 سالہ ام ناصر دحمان کہتی ہیں کہ رمضان سے پہلے ہمیں کچھ امیدیں تھیں، مگر روزے شروع ہونے سے ایک رات پہلے وہ ختم ہو گئیں۔

غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی اب پناہ گزین بن چکی ہے۔

اسرائیل امدادی قافلے پر حملےسے پہلے ہی سفارتی طور پر تنہا ہو چکا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بار بار انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور غزہ میں امداد کی ترسیل بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا جہاں امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

چھ ماہ کی جنگ کے باوجود جنگجو لڑنے کے قابل ہیں

اسرائیل کا یہ کہنا ہے کہ اس کی فورسز ہزاروں جنگجوؤں کو ہلاک اور ان کے زیادہ تر لڑاکا یونٹ تباہ کر چکی ہیں، لیکن چھ مہینے گزرنے کے باوجود اب بھی اسرائیلی فوجی شمالی اور وسطی غزہ میں جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں۔

حماس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے تک لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ ایک سینئر عہدے دار سامی ابورہری کہتے ہیں چھ ماہ گزر چکے ہیں اور القسام بریگیڈ اب بھی غاصب فوج کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے قابل ہے۔

نتین یاہو نے اب تک جنگ بندی کے لیے دباؤ کی مزاحمت کی ہے اور یہ إصرار کیا ہے کہ دیرپا امن کے لیے حماس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے صدر بائیڈن سے ٹیلی فون کال سے چند گھنٹے پہلے جمعرات کو یروشلم میں ریپبلکن کانگریس کے ارکان سے کہا کہ فتح ہماری پہنچ میں ہے۔ اور فتح کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے بجٹ میں مزیدامداد کی اپیل کی۔

اسرائیل میں نیتن یاہو کی حمایت گھٹ رہی ہے

اسرائیل کے لوگ غزہ میں قید 134 مغویوں کو واپس لانے اور حماس کو ختم کرنے کے جنگی مقاصد کی حمایت کرتے رہے ہیں، لیکن اب صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ نتین یاہو کو بڑھتے ہوئے احتجاج اور نئے انتخابات کے مطالبات کا سامنا ہے۔ رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بھاری شکست ان کا مقدر بن سکتی ہے۔

یروشلم سے تعلق رکھنے والی 73 سالہ مصنفہ اور ایک اسٹارٹ اپ کی بانی وینڈی کیرول کہتی ہیں کہ مجھے وزیر اعظم پر بھروسہ نہیں ہے۔ وہ قوم کو تقسیم کرنے والی ایک قوت ہیں اور تمام پس منظروں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ یہی محسوس کرتے ہیں۔

غزہ کی ہلاکتوں میں ایک تہائی سے زیادہ بچے ہیں

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 10000 سے زیادہ جنگجو ہیں، لیکن عسکریت پسند گروپ ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں ایک تہائی سے زیادہ بچے ہیں۔

7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1200 سے کچھ کم لوگ مارے گئے تھے اور 250 کے لگ بھگ افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ جب کہ چھ مہینے سے جاری جنگ میں غزہ میں حماس کے کنٹرول کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 33000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں سے دو تہائی عورتیں اور بچے ہیں۔

بڑے پیمانے پر ہلاکتوں نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور جنگ کو روکنے کے مطالبات میں شدت آتی جا رہی ہے۔

(اس آرٹیکل کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG