|
اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ دنیا کو آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے صرف دو سال باقی ہیں لہذا زمین سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے ڈرامائی تبدیلیاں اور فیصلے ناگزیر ہیں۔
اقوامَ متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے ایگزیکٹو سیکریٹری سائمن اسٹیل نے کہا کہ اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی جانب سے یہ انتباہ ڈرامائی سا لگ سکتا ہے لیکن دنیا کو بچانے کے لیے اہم اقدامات بہت ضروری ہیں۔
عالمی ادارے کے آب و ہوا کے ادارے کے سربراہ نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا،"دنیا کو بچانے کے لیے کس کے پاس بالکل دو سال ہیں؟ جواب اس سیارے پر موجود ہر شخص کے پاس ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ معاشرے اور سیاسی میدانوں میں آب و ہوا سے متعلق اقدامات چاہتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں اور اپنے گھریلو بجٹ میں موسمیاتی بحران کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔
ان کے انتباہ کا مقصد خاص طور پر جی 20 ممالک پر آب و ہوا میں تبدیلی کو روکنے پر زور دینا تھا۔ ان ممالک میں امریکہ، چین اور بھارت جیسی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتیں شامل ہیں۔
یہ ممالک زمین سے حرارتی اخراج کے 80 فی صد کے ذمہ دار ہیں اور بقول اسٹیل انہیں اس سلسلے میں تخفیف کرنے کے منصوبوں کو اہمیت دینی چاہیے۔
مایرین کے مطابق غریب ممالک موسمیاتی تخفیف کی حکمتِ عملیوں کو نافذ کرنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔
چین جو خود کو ایک ترقی پذیر ملک تصور کرتا ہے کو سال 2030 تک اپنی آب و ہوا اور ترقیاتی ترجیحات کو پورا کرنے کے لیے 2.4 ٹریلین ڈالر سالانہ لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم، ہر کوئی اس بات پر قائل نہیں ہے کہ خوف پھیلانے والی انتباہات ان ملکوں کی جانب سے مؤثر کارروائیوں میں تیزی کا باعث بن سکتے ہیں۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے موسمیاتی سائنس دان مائیکل اوپن ہائیمر کہتے ہیں دنیا کو بچانے کے لیے دو سال' کی بات کرنا بے معنی سی بیان بازی ہے۔
ان کے بقول اس بیان بازی کو بہترین صورت میں نظر انداز کر دیا جائے گا جب کہ بدترین صورت میں یہ الٹ نتیجہ پیدا کرے گی۔
امریکی سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین مہلک گیسوں کی سطح گزشتہ سال غیر معمولی سطح تک پہنچ گئی اور یہ گرم ترین سال ثابت ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ، عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 1.1 فی صد اضافہ ہوا۔
اگر زمین سے فضا میں گرمی سمیٹنے والا اخراج موجودہ شرح پر جاری رہتا ہے تو اسٹیل نے کہا کہ یہ "دنیا کے امیر ترین اور غریب ترین ممالک اور کمیونٹیز کے درمیان مجموعی عدم مساوات کو مزید بڑھا دے گا۔"
تاہم ابھی دنیا بھر میں حکومتیں اخراج میں تخفیف کے اہداف کو پورا کرنے کے قریب نہیں ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم