رسائی کے لنکس

بھارتی انتخابات: 2019 کے مقابلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی، رپورٹس


جمعہ، 19 اپریل، 2024، کوجموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈا میں بھارت کے قومی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کی پولنگ کے دوران ووٹ ڈالنے کے بعد ایک خاتون اپنی انگلی پر انمٹ سیاہی کا نشان دکھا رہی ہیں۔ (اے پی فوٹو)
جمعہ، 19 اپریل، 2024، کوجموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈا میں بھارت کے قومی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کی پولنگ کے دوران ووٹ ڈالنے کے بعد ایک خاتون اپنی انگلی پر انمٹ سیاہی کا نشان دکھا رہی ہیں۔ (اے پی فوٹو)

  • بھارت میں سات مرحلوں میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا.
  • میڈیا کے مطابق2019 کے مقابلے ووٹر ٹرن آؤٹ میں کچھ کمی نظر آئی۔
  • الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی۔
  • مغربی بنگال اور منی پور میں الیکشن کے دوران تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
  • بھارت میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 97 کروڑ ہے۔

نئی دہلی _ بھارت میں عام انتخابات کے لیے پہلے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے جس میں رائے دہندگان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تاہم مغربی بنگال اور منی پور میں تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔میڈیا کے مطابق2019 کے پہلے مرحلے کےمقابلے ووٹر ٹرن آؤٹ میں کچھ کمی نظر آئی۔

بھارت میں سات مراحل میں انتخابات ہوں گے۔ جمعے کو پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں کے 102 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔

جن ریاستوں میں ووٹ ڈالے گئے ان میں اتر پردیش، تمل ناڈو، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، آسام، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے حلقے شامل ہیں۔

میڈیا کے مطابق پہلے مرحلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ

الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق شام سات بجے تک مجموعی طور پر 60 فیصد سے زائد پولنگ ہوئی۔

تاہم بھارت کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی اور انڈیا ٹوڈے سمیت بیشتر میڈیا اداروں نے بتایا ہے کہ رات میں نو بجے تک مجموعی طور پر62.37 فیصد ووٹ پول ہوئے۔ جب کہ 2019 میں پہلے مرحلے میں 69.43 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ بہار میں سب سے کم 48.5 فیصد پولنگ ہوئی۔

میڈیارپورٹس کے مطابق ریاست تمل ناڈو میں جہاں تمام 39 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے، 67.2 فیصد پولنگ ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 72.4 فیصد ہوئی تھی۔ راجستھان میں 57.3 فیصد ہوئی۔ جب کہ 2019 میں 64 فیصد ہوئی تھی۔

رپورٹس کے مطابق سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ، جو 77.6 فیصد تھا مغربی بنگال میں دیکھاگیا۔ شمال مشرق کی بی جے پی حکومت والی ریاستوں آسام میں 72.3، میگھالیہ میں 75.5، منی پور میں 62.9، اروناچل پردیش میں 67.6 اور تری پورہ میں 80.6 فیصد پولنگ ہوئی۔

جن ریاستوں میں ووٹ ڈالے گئے ان میں اتر پردیش، تمل ناڈو، اتراکھنڈ، منی پور، میگھالیہ، آسام، مہاراشٹر، راجستھان، مغربی بنگال اور نئی دہلی کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے حلقے شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 97 کروڑ ہے۔ ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کی کل نشستوں کی تعداد 543 ہے جن پر کامیاب ہونے والے ارکان آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب ہوں گے۔

لوک سبھا کے انتخابات میں 272 نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

مغربی بنگال میں تصادم

مغربی بنگال میں برسراقتدار جماعت ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں میں چنداماری کے علاقے میں تصادم ہوا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے مداخلت کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے حامیوں کو منتشر کر دیا۔

ٹی ایم سی نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں نے کوچ بہار ضلعے کے سیتل کوچی میں ہنگامہ کیا اور ٹی ایم سی کے کارکنوں پر تشدد کیا جب کہ ٹی سی ایم نے الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا ہے۔

دوسری جانب بی جے پی نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹی ایم سی کے کارکنوں نے ان کے کارکنوں اور پولنگ ایجنٹوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک پولنگ بوتھ پر اس کا انچارج زخمی ہو گیا۔

بھارتی انتخابات: کیا جاننا ضروری ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

ادھر کوچ بہار کے موضع دنہاٹا میں ایک بم بھی برآمد کیا گیا ہے۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ ٹی ایم سی کے کارکنوں نے بی جے پی کے بوتھ انچارج پر بم پھینکا تھا۔

یاد رہے کہ بی جے پی ریاست میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جب کہ ٹی ایم سی اس کی طاقت میں اضافے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرا دیے ہیں۔

نسلی فسادات سے متاثر ریاست منی پور میں بھی تشدد کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق نامعلوم شرپسندوں نے تھامن پوکپی میں ایک پولنگ بوتھ کے قریب فائرنگ کی جب کہ ایک دوسرے مقام پر ایک پولنگ بوتھ پر تشدد کا واقعہ پیش آیا۔

ریاست چھتیس گڑھ میں ایک بم دھماکے کی خبر ہے جس کے نتیجے میں ایک سیکیورٹی اہلکار زخمی ہو گیا ہے جب کہ تمل ناڈو، اروناچل پردیش، انڈمان نکوبار اور آسام میں بعض پولنگ اسٹیشنز پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) میں خرابی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق منی پور کے امپھال ایسٹ اور امپھال ویسٹ میں متعدد ووٹنگ مشینوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔

ادھر ناگالینڈ میں ایک مقامی تنظیم ’ایسٹرن ناگالینڈ پیپلز آرگنائزیشن‘ کی جانب سے عوامی ایمرجنسی اور انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کے بعد چھ اضلاع میں تقریباً صفر ووٹنگ ہوئی۔ مذکورہ تنظیم مزید مالی خودمختاری کے ساتھ علیحدہ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔

دیگر تمام ریاستوں سے پرامن انداز میں پولنگ کی اطلاعات ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ہر جگہ عوام بڑھ چڑھ کر ووٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم مودی کی تیسری مدت کے لیے اقتدار میں آنے کی کوشش

وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حلیف جماعتوں کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے لیے 400 سے زائد سیٹوں پر کامیابی کا ہدف مقرر کیا ہے۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلوسیو الائنس (انڈیا) میں شامل جماعتیں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی زمین کی تلاش اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

واضح رہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کی 303 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جب کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس صرف 52 سیٹوں پر کامیاب ہو سکی تھی۔

اس بار ہونے والے لوک سبھا انتخابات کا دوسرا مرحلہ 26 اپریل کو شروع ہو گا۔ اسی طرح سات مئی، 13 مئی، 20 مئی، 25 مئی اور یکم جون کو بھی مختلف ریاستوں میں پولنگ ہو گی۔

بھارت کا الیکشن کمیشن چار جون کو انتخابی نتائج کا اعلان کرے گا۔

بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کا اہم چہرہ راہل گاندھی ہیں جو انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی اس بار انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG