رسائی کے لنکس

افغانستان میں سیاحت کے فروغ کی کوششیں؛ کیا طالبان کامیاب ہوں گے؟


  • گزشتہ دو برسوں میں افغانستان آنے والے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
  • افغانستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی سیاح چین سے آ رہے ہیں۔
  • ملک کے واحد فائیو اسٹار ہوٹل میں کئی ماہ سے بند اسپا اور سیلون کو صرف غیر ملکی خواتین کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

یہ طالبان کے زیرِ انتظام کابل میں سیاحت اور میزبانی کی صنعت کے لیے بنائے گئے ایک انسٹی ٹیوٹ کی کلاس کا منظر ہے جہاں 30 سے زائد افراد ایک کمرے میں جمع ہیں۔

تربیت حاصل کرنے والوں نے کوئی خاص یونیفارم نہیں پہن رکھا۔ یہ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہیں۔ یہ سب مختلف پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طالبِ علم ماڈلنگ کرتا رہا ہے اور اس گروپ میں 17 سال کا لڑکا بھی شامل ہے جسے اس سے قبل کسی ملازمت کا تجربہ نہیں ہے۔

ان طلبہ کی عمر، تعلیمی پس منظر اور پیشہ ورانہ تجربہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ سیاحت یا میزبانی کی صنعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہ سبھی مرد ہیں کیوں کہ افغان خواتین پر پرائمری کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی پابندی ہے۔

اس کلاس میں جمع ہونے والے افراد دنیا میں سیاحت کے بارے میں چاہے کچھ نہ جانتے ہوں۔ لیکن دنیا کے سامنے افغانستان کی ایک مختلف تصویر لانے کی شدید خواہش رکھتے ہی اور طالبان بخوشی ان کی مدد کر رہے ہیں۔

افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کو خود بھی عالمی سطح پر اپنے امیج کا مسئلہ درپیش ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور عملی زندگی میں ان کے کردار کو محدود کرنے کی وجہ سے طالبان عالمی برادری کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔ افغانستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے اور غربت عروج پر ہے۔

ان حالات کے باوجود بڑی تعداد میں غیر ملکی افغانستان کا رُخ کر رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ طالبان حکومت کے قیام کے بعد تشدد کے واقعات میں کمی ہے۔ اس لیے دبئی جیسے سیاحتی مراکز سے افغانستان کا رخ کرنے والی پروازوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

غیر ملکی پروازیں صرف دارلحکومت کابل کے ایئرپورٹ پر اترتی ہیں۔
غیر ملکی پروازیں صرف دارلحکومت کابل کے ایئرپورٹ پر اترتی ہیں۔

اگرچہ ایسے افراد کی تعداد زیادہ نہیں ہے جو سیاحت کے لیے عام ڈگر سے ہٹ کر کابل آ رہے ہیں اور ماضی میں بھی یہ تعداد غیر معمولی نہیں رہی تھی۔ لیکن موجودہ حالات میں بھی افغانستان میں سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔

سال 2021 میں صرف 691 غیر ملکی سیاح افغانستان آئے تھے۔ 2022 میں یہ تعداد 2300 ہو گئی اور گزشتہ برس 7000 غیر ملکی سیاح افغانستان آئے ہیں۔

کابل میں محکمہ سیاحت کے سربراہ محمد سعید کہتے ہیں کہ اپنی آبادی اور افغانستان سے قربت کی وجہ سے سب سے زیادہ سیاح چین سے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ چینیوں کی جانب سے افغانستان کو خطے کے دیگر ممالک پر ترجیح دینے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔

محمد سعید کے بقول: ’’چینی کہتے ہیں کہ وہ پاکستان نہیں جانا چاہتے کیوں کہ وہاں انہیں حملوں کا خطرہ ہے۔ مجھے ملنے والے جاپانی بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے بہت اچھی ہے۔‘‘

لیکن ساتھ ہی افغانستان آنے والے سیاحوں کو بعض بڑے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

افغانستان کا ویزا حاصل کرنا مشکل ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد کئی ممالک کے ساتھ افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ اب تک دنیا کے کسی ملک کے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

کابل میں میں زیارتِ سخی کی عمارت جہاں زیادہ ترہزارہ شیعہ آتے ہیں۔
کابل میں میں زیارتِ سخی کی عمارت جہاں زیادہ ترہزارہ شیعہ آتے ہیں۔

دنیا بھر میں افغانستان کے سفارت خانے یا تو بند ہو چکے ہیں یا انہوں نے کام معطل کر رکھا ہے۔ افغان سفارت خانوں میں گزشتہ حکومت کے تعینات کردہ افراد اور طالبان انتظامیہ کے مقرر کردہ حکام کے درمیان بھی چپقلش جاری ہے۔

محمد سعید کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سیاحت کے فروغ میں کئی رکاوٹیں ہیں البتہ وہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے متعلقہ وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ان کا ہدف یہ ہے کہ سیاحوں کو ’ویزا آن ارائیول‘ یعنی ملک پہنچنے پر ویزا دینے کی سہولت دی جائے لیکن اس میں کئی سال لگ جائیں گے۔

افغانستان میں سڑکوں کی حالت بہت بری ہے۔ کئی شہروں کو آپس میں ملانے والی سڑکیں خستہ حال ہیں اور کئی علاقوں میں سڑک ہی نہیں ہے۔ ایک اور بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اکثر ایئر لائنز افغانستان کے لیے پروازیں چلانے سے گریز کرتی ہیں۔

سب سے زیادہ بین الاقوامی پروازیں دار الحکومت کابل میں اترتی ہیں لیکن کسی بھی افغان ایئر پورٹ کے لیے چین، یورپ یا بھارت جیسی سیاحوں کی بڑی مارکیٹس سے براہ راست پرواز نہیں آتی۔

ان مسائل کے باوجود محمد سعید افغانستان کو خطے میں سیاحت کا سب سے بڑا مرکز بنانا چاہتے ہیں اور ان کے عزائم کو طالبان قیادت کی تائید بھی حاصل ہے۔

کابل کا دار الامان پیلس۔
کابل کا دار الامان پیلس۔

ان کا کہنا ہے: ’’مجھے اس محکمے میں بڑوں (وزرا) کی ہدایت پر بھیجا گیا ہے۔ وہ لازماً مجھ پر اعتماد کرتے ہیں تبھی مجھے اس اہم جگہ پر بھیجا ہے۔‘‘

سیاحت اور میزبانی کے شعبے میں تربیت حاصل کرنے والے طلبہ بھی افغانستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے پُر عزم ہیں۔

ان میں شامل ماڈل احمد مسعود تلاش کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں زیادہ سے زیادہ حسین مقامات اور اس کی تاریخ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تاکہ انہیں انسٹا گرام پر پوسٹ کر سکیں اور میڈیا پر ان کا تعارف کرا سکیں۔

بزنس اسکول سے گریجویشن کرنے والے سمیر احمد زئی ایک ہوٹل بنانا چاہتے ہیں اور اس سے قبل سیاحت اور میزبانی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھنا چاہتے ہیں۔

احمد زئی کا کہنا ہے: ’’دنیا کہتی ہے کہ افغانستان ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہاں صرف غربت اور جنگ ہے۔ ہماری تاریخ پانچ ہزار سال پر پھیلی ہے۔ دنیا کے سامنے افغانستان کے نئے مناظر آنے چاہئیں۔‘‘

سیاحتی شعبوں میں تربیت کے لیے جاری کلاسوں میں دست کار بھی شامل ہیں۔

یہاں زیرِ تربیت طلبہ کی تربیت کے لیے ایک ایسا موضوع بھی رکھا گیا ہے جو باقاعدہ نصاب میں شامل نہیں۔ یہ موضوع اس بارے میں ہیں کہ غیر ملکی خواتین کے ساتھ برتاؤ کیسا ہونا چاہیے یا ان کے بعض رویے مقامی روایات سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کی مثالیں یہ دی گئی ہیں کہ غیر ملکی سیاح خواتین گلیوں بازاروں میں چلتے پھرتے تمباکو نوشی کر سکتی ہیں۔ کھانا پینا کر سکتی ہیں اور ایسے مردوں کے ساتھ میل جول بھی کرسکتی ہیں جو ان کے محرم نہ ہوں۔

طالبان حکومت نے خواتین کے لیے ڈریس کوڈ جاری کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین پر لازم ہے کہ وہ کسی محرم کے ساتھ سفر کریں۔ خواتین کا اکیلے گھر سے باہر کہیں کھانے پینے کے لیے جانا، سفر کرنا اور میل ملاپ بہت مشکل کردیا گیا ہے۔ خواتین کے جم بند ہیں اور بیوٹی پارلرز پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس لیے بہت کم ہی ایسی جگہیں ہیں جہاں خواتین جمع ہو سکتی ہیں۔

لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ افغانستان کے واحد فائیو اسٹار ہوٹل سرینا میں کئی ماہ سے بند اسپا اور سیلون غیر ملکی خواتین کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔

طالبان جنگ جو افغان بادشاہ نادر شاہ کی قبرکے پاس سیلفی کھینچ رہے ہیں۔
طالبان جنگ جو افغان بادشاہ نادر شاہ کی قبرکے پاس سیلفی کھینچ رہے ہیں۔

لیکن ان سہولتوں تک صرف غیر ملکیوں کو رسائی حاصل ہے جس کے لیے ان کا پاسپورٹ دیکھا جاتا ہے۔ وہ خواتین جن کے پاسپورٹ یا شناختی دستاویز پر ’افغانستان میں پیدائش‘ درج ہو یہ سہولتیں ان کے لیے نہیں ہے۔

افغان خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے سمندر پار کام کرنے والی ٹریول کمپنیوں کو بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ کمپنیاں افغانستان کی مثبت ثقافتی تصویر سامنے لانے کے لیے مقامی مںصوبوں اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے عطیات دینے کو بھی تیار ہیں۔

ایک غیر ملکی ٹریول ایجنسی کے بانی شین ہوران کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سفر کو کسی حکومت یا سیاسی انتظام کو تسلیم کرنے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

ان کے بقول، ہمارا اصل مقصد افغانستان کے سیاسی تناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ذمے دارانہ سیاحتی روایات قائم کرنا ہے جن سے مقامی معیشت پر مثبت اثرات ہوں اور باہمی احترام کو فروغ ملے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکام کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے کہ ٹور گروپس نے کیا دیکھا اور کیا کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے۔ کسی بھی ٹور سے حاصل ہونے والے منافع کی ایک خاص شرح ان تںظیموں کے پروگرامز کو دی جاتی ہے۔

طالبان کے زیرِ انتظام چلنے والے انسٹی ٹیوٹ آف ٹور ازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ میں کوئی خاتون نہیں ہے۔ یہاں زیرِ تربیت طلبہ اس بات کا تذکرہ نہیں کرتے لیکن محکمۂ سیاحت کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کی نشان دہی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک ہے۔ ان کے گھر کی خواتین بھی پوچھتی ہیں کہ کیا انہیں اس انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم کی اجازت ہو گی۔ لیکن حکومت بدلنے کے ساتھ پالیسی میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ جو خواتین طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل یہاں پڑھتی تھیں وہ جا چکی ہیں اور کبھی نہیں آئیں گی۔ ان کی تعلیم ادھوری ہی رہ جائے گی۔ ‘

اس تحریر کا مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG