رسائی کے لنکس

پاکستان میں چار برس کے لیے تعلیمی ایمرجینسی لگانے پر غور


  • پاکستان کی حکومت نے ملک میں تعلیمی ایمرجینسی نافذ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
  • ایمرجینسی کے تحت اسکولز سے باہر دو کروڑ 60 لاکھ بچوں کی اسکولز تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔
  • پاکستان میں اسکول جانے والی عمر کے 40 فی صد سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں جن میں بچیوں کی شرح 54 فی صد ہے۔
  • وزارتِ تعلیم ملک بھر میں تعلیمی ایمرجینسی کے نفاذ پر کام کر رہی ہے: وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی
  • نظامِ تعلیم میں بنیادی اصلاحات اور تعلیمی شعبے میں جدت پر کام کرنا ہو گا: شہزاد رائے

اسلام آباد -- پاکستان کی وفاقی حکومت ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد اسکولوں سے باہر دو کروڑ 60 لاکھ بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنا ہے۔

وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزارتِ تعلیم ملک بھر میں چار برس کے لیے تعلیمی ایمرجینسی کے نفاذ پر کام کر رہی ہے۔

پاکستان میں اسکول جانے والی عمر کے 40 فی صد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں بچیوں کی شرح 54 فی صد ہے۔

وزیرِ اعظم کو دی گئی بریفنگ کے مطابق اسکول سے باہر ان بچوں کی کل تعداد کا تین چوتھائی سے زیادہ یعنی 78 فی صد کبھی اسکول نہیں گئے جب کہ باقی 22 فی صد وہ تھے جنہوں نے اسکول میں اندراج کے بعد چھوڑ دیا تھا۔

پاکستان میں تعلیم کی حالتِ زار کو دیکھا جائے تو 10 سال کی عمر کے 75 فی صد بچے متن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس کے علاوہ یونیسیف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 40 فی صد سے زیادہ بچے بنیادی نشونما اور صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔

وفاقی سیکریٹری تعلیم محی الدین وانی کہتے ہیں کہ اسکول سے باہر بچوں کا مسئلہ صرف تعلیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بڑھتی آبادی، صحت، خزانہ، منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کا مسئلہ بھی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے نظام میں مسائل ہیں جس کے سبب دو کروڑ 60 لاکھ بچے مختلف وجوہات کی بنا پر اسکول نہیں جا پا رہے۔

ان کے بقول حکومت کو اس معاملے پر تشویش ہے اور وزیرِ اعظم نے ایک قومی کانفرنس بلانے کا کہا ہے جس میں وہ تعلیمی ایمرجینسی نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

رواں ماہ (اپریل) میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجینسی لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بڑی مجرمانہ غفلت نہیں ہو سکتی کہ دو کروڑ 60 لاکھ بچے اور بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیمی عدم مساوات کے دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ ایک اہم قدم ہو گا جس سے مستحق بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے پر توجہ مرکوز ہو سکے گی۔

'جدید تعلیم کے طریقے اپنانا ہوں گے'

غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے والے 'زندگی ٹرسٹ' کے بانی اور مشہور گلوکار شہزاد رائے کہتے ہیں کہ تعلیمی شعبے کی سنگین صورتِ حال میں بہتری کے لیے ایمرجینسی کا نفاذ اچھا قدم ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتیجے میں بنیادی اصلاحات اور تعلیم کی فراہمی کے جدید طریقے اپنانا ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '"مجھے ان بچوں کی بہت فکر ہے جو اسکول سے باہر ہیں۔ لیکن ان بچوں کی زیادہ فکر ہے جنہیں اسکول میں معیاری تعلیم مہیا نہیں ہو رہی ہے جس کے سبب وہ بچے 10 سال کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہے۔"

انہوں نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ حکومت ایمرجینسی کے ذریعے جو اقدامات لینے جا رہی ہے جن میں تعلیم کے بجٹ میں اضافے، اسکول میں بچوں کا کھانا مہیا کرنے سمیت تعلیمی اصلاحات پر جامع عمل ہو سکے گا۔

تعلیمی ایمرجینسی سے کیا ہو گا؟

تعلیمی ایمرجینسی کے ذریعے اسکول سے باہر بچوں کی تعلیم کے علاوہ وفاق اور صوبوں میں تعلیم کے بجٹ کو بڑھاتے ہوئے، معیاری تعلیمی نظام لا کر شرح خواندگی کو بڑھایا جائے گا۔

ملک کو 62 فی صد کی کم شرح خواندگی کا بھی سامنا ہے جب کہ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں حکومت کی جانب سے مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا صرف 1.7 فی صد بھی تشویش ناک ہے۔

ماہرین کے مطابق پالیسی سازوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیمی اصلاحات کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنائیں جو اس شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹے۔

محی الدین وانی نے بتایا کہ تعلیمی ایمرجینسی کے تحت دو کروڑ 60 لاکھ اسکول سے باہر بچے کی تعداد کو کم کر کے آئندہ پانچ برسوں میں 90 لاکھ تک لانے کا ہدف تجویز کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مختلف مسائل جس میں اسکول نہ ہونے یا دور ہونے، بچوں کی صحت، غربت اور اساتذہ نہ ہونے جیسے مسائل شامل ہیں۔

شہزاد رائے کہتے ہیں کہ بچوں کے اسکول نہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں معیاری تعلیم مہیا نہیں ہے اور بچوں کو سوچنے کا عمل نہیں دیا جاتا ہے۔ ان کے بقول اسکول میں زیادہ تر اساتذہ ٹیچنگ ڈگری نہیں رکھتے ہیں اور جب تک ماہر اساتذہ نہیں ہوں گے یہ بچے دوبارہ اسکول سے باہر نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو سب سے پہلے ٹیچرز ٹریننگ کالجز کو فعال بناتے ہوئے اساتذہ کو پڑھانے کی تربیت دینا ہو گی تب ہی معیار تعلیم میں بہتری آئے گی اور اسکول سے باہر بچوں کے والدین کو بھی اعتماد آئے گا کہ ان کا بچہ پڑھ کر بہتر روزگار حاصل کرسکے گا۔

محی الدین وانی کہتے ہیں کہ ایمرجینسی کے نفاذ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں میں تعلیم کا بجٹ آئندہ پانچ سال میں بڑھا کر جی ڈی پی کا پانچ فی صد تک لے جایا جائے گا اور پسماندہ علاقوں میں وسائل کی تقسیم کو بہتر بنائیں گے۔

فورم

XS
SM
MD
LG