رسائی کے لنکس

اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی میں تعطل کی وجہ رفح ہے: امریکی وزیر دفاع


امریکی وزیر دفاع لائیڈآسٹن 8 مئی کو سینیٹ کی ایک کمیٹی کی سماعت کےدوران، فوٹو اے ایف پی
امریکی وزیر دفاع لائیڈآسٹن 8 مئی کو سینیٹ کی ایک کمیٹی کی سماعت کےدوران، فوٹو اے ایف پی

  • اسرائیل کے ہتھیاروں کی فراہمی میں تعطل کی وجہ رفح ہے: امریکی وزیر دفاع آسٹن
  • آسٹن بائیڈن انتظامیہ کے پہلے سینئر عہدہ دار ہیں جنہوں نے اسرائیل کو مسلح کرنے سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی ممکنہ تبدیلی کی عوامی طور پر وضاحت کی۔
  • انہوں نے کہا بھاری گولہ بارود کی ایک کھیپ کو روک دیا گیا ہے، اور ہم نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ کھیپ روکنےکا یہ سلسلہ آگے کیسے بڑھے گا۔
  • اسرائیل کے سفیر نے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بدھ کو کہا کہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ غزہ کے شہر رفح میں اسرائیل کے کسی ممکنہ حملے سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

آسٹن نے مزید کہا کہ انتظامیہ اسرائیل کے لیے سیکیورٹی سے متعلق کچھ جلد ہونے والی ترسیل کا بھی جائزہ لے رہی تھی۔

آسٹن بائیڈن انتظامیہ کے پہلے سینئر عہدہ دار ہیں جنہوں نے اسرائیل کو اسلحہ دینے سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی ممکنہ تبدیلی کی عوامی طور پر وضاحت کی ہے۔

سینیٹ کی ایک سماعت کے دوران آسٹن نے زور دیا کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے آہنی عزم رکھتا ہے اور اسلحہ کی ترسیل معطل کرنے کا فیصلہ حتمی نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ اس کو ترجیح دیتا ہے کہ "رفح میں کوئی بڑی لڑائی نہ ہو" اور یہ کہ کم از کم کسی بھی اسرائیلی کارروائی میں شہریوں کی جانوں کا تحفظ ضروری ہے۔”

آسٹن نے سینیٹ کی سماعت کے دوران کہا کہ "ہم شروع سے ہی اس بارے میں بہت واضح رہے ہیں کہ اسرائیل کو رفح میں جنگی زون میں موجود شہریوں کے تحفظ کے بغیر، وہاں کوئی بڑا حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ "

انہوں نے مزید کہا، "اور جیسا کہ ہم نے صورت حال کا اندازہ لگایا ہے، ہم نے بھاری گولہ بارود کی ایک کھیپ کو روک دیا ہے، اور ہم نے اس بارےمیں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ یہ سلسلہ کس طرح جاری رہ سکتا ہے۔

آسٹن نے کہا کہ اسرائیل کو اپنے حملوں میں زیادہ درست ہونا چاہیے۔ اور گنجان آباد علاقوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی بالکل ٹھیک نشانہ لگانے والی نوعیت اہمیت رکھتی ہے۔

آسٹن نے کہا کہ "چھوٹے قطر کا ایسا بم، جو بالکل درست نشانے پر لگنے والا ہتھیار ہے، ایک گنجان آبادی میں بہت کار گر ہو سکتا ہے، لیکن 2 ہزار پاؤنڈ کا بم نہیں جس سے بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اسی اثنا میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا کہ جس طرح اسرائیل نے اس سے قبل غزہ میں کارروائی کی ہے اور شہری آبادی پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، رفح میں اسرائیلی آپریشن کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔

ملر نے مزید کہا کہ انتظامیہ اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی عنقریب ہونے والی کچھ ترسیل کے اسٹیٹس کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اسرائیلی چینل 12 ٹی وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنے کا فیصلہ "انتہائی مایوس کن فیصلہ تھا، حتیٰ کہ مایوس کن بھی۔" انہوں نےخیال ظاہر کیا کہ اس اقدام کی وجہ بائیڈن پر کانگریس کا سیاسی دباؤ ، امریکی کیمپسس احتجاج اور آئندہ انتخابات ہیں۔

بائیڈن نے سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ملک پر حملے کے بعد اسرائیل کے لیے اپنی مکمل حمایت کا وعدہ کیا تھا، اور اس نے واشنگٹن کے مشرق وسطیٰ کے اپنے سب سے قریبی اتحادی کو اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ بھیجا تھا۔

اسرائیل نے حماس کے ہزاروں جنگجوؤں کو شکست دینے کے لیے رفح پر بڑے حملے کی دھمکی دی ہے، لیکن مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس شہر پر بڑے پیمانے پر حملہ ایک انسانی تباہی کو جنم دے گا۔

حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور تقریباً 250 اغوا ہوئے تھے ، جن میں سے 133 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں قید ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ حماس کو تباہ کرنے کی اسرائیل کا عزم سات ماہ کی فوجی مہم کا باعث بنا ہے جس میں اب تک 34,789 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG