|
غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کےخاندانوں نےامریکہ اور ان حکومتوں پر،جن کے شہری یرغمالوں میں شامل ہیں،زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان کی واپسی کے لیے حماس کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں۔
پیر کو دیر گئے غزہ میں سات ماہ کی جنگ کے بارے میں جنگ بندی مذاکرات میں پیش رفت کی علامات سامنے آنے کے بعد ، یرغمالوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم نے کہا کہ اس نے متعدد ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ "اسرائیلی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں" اورکوئی معاہدہ طے کرنے پر زور دیں۔
گروپ نے ان تمام ملکوں کے سفیروں کے لیے جن کے شہری حماس کے پاس یرغمال ہیں، ایک پیغام میں کہا،” اس اہم وقت میں جب یرغمالوں کی رہائی کے لیے ایک قابل عمل موقع مذاکرات کی میز پر موجود ہے ، یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آپ کی حکومتیں ایسے کسی معاہدے کی بھر پور حمایت کریں۔“
گروپ نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ “یہ وقت ہے کہ آپ اسرائیلی حکومت اور دوسرے تمام متعلقہ فریقوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی معاہدہ طے پاجائے،جس کے ذریعے آخر کار ہمارے تمام عزیزوں کو گھر واپس لایا جاسکے گا۔”
اسرائیل کے اندر جنگ بندی کی حمایت میں اضافہ
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ویٹربی سنٹر فار پبلک اوپینین کی طرف سے منگل کو شائع ہونے والے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ یہودی اسرائیلیوں کی اکثریت رفح میں فوجی کارروائی کو آگے بڑھانے کے بجائے یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کو زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران کیے گئے اس سروے میں 600 لوگوں سے عبرانی زبان میں اور 150 لوگوں سے عربی زبان میں انٹرویو کیے گئے۔نتائج سے ظاہر ہوا کہ سروے میں شامل 56 فیصد یہودی اسرائیلیوں نے کہا کہ یرغمالوں کی رہائی کا معاہدہ ملک کے قومی مفادات کے لیے اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
سروے میں شامل 88.5 فیصد عرب اسرائیلیوں نے بھی اسی جذبے کا اظہار کیا ہے۔
یرغمالوں کے خاندان ان لوگوں میں شامل ہیں جو مسلسل احتجاج کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسیروں کو واپس لانے کے لیے حماس کے ساتھ کوئی معاہدہ طے کرے۔
مزاکرات میں جنگ بندی کی طرف پیش رفت؟
یرغمالوں اور لاپتہ افراد کے فورم کی جانب سے منگل کو یہ پیغام اس وقت آیا جب حماس نے پیر کو دیر گئےیہ کہتے ہوئے کہ گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں ہے اعلان کیا کہ اس نے مصری اور قطری ثالثوں کی طرف سے تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
کئی ماہ کی شٹل ڈپلومیسی کے باوجود، ثالث ابھی تک گذشتہ نومبر میں ہونے والی ایک ہفتے کی اس جنگ بندی کی طرح کوئی نئی جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے ہیں ،جس میں اسرائیلیوں کے پاس قید فلسطینیوں کے بدلے، اسرائیلی یرغمالوں سمیت 105 یرغمالوں کو رہا کیا گیا تھا۔
گزشتہ مذاکراتی کوششیں اس لیے جزوی طور پر تعطل کا شکار ہو ئی تھیں کیوں کہ حماس دیرپا جنگ بندی کے مطالبے پر قائم تھا جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم اس عزم پر ڈٹے تھے کہ وہ رفح میں حماس کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو کچل کر رہیں گے ۔
اسرائیل نے پیر کو کہا کہ وہ حماس کی طرف سے قبول کی گئی جنگ بندی کی تجویز کا جائزہ لے گا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، اس نے رفح میں ٹینک بھی بھیجے اور مصر کے ساتھ اس کی سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کر لیا، جو غزہ میں امداد کے داخلے کا مرکزی مقام ہے۔
7 اکتوبر کے اس حملے کے دوران, جس نےغزہ میں وحشیانہ جنگ کو جنم دیا، فلسطینی عسکریت پسندوں نے لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنا یا تھا ۔ ان میں امریکی، تھائی، فرانسیسی، برطانوی اور روسی شہریوں سمیت ، غیر ملکی اور دوہری شہریت کے حامل افراد شامل تھے۔
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ غزہ میں 128 یرغمال ابھی باقی ہیں، جن میں وہ 35شامل ہیں جن کےبارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کی گنتی کے مطابق، حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے نتیجے میں 1,170 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس گروپ کے خلاف اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں ،حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں کم از کم 34,789 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اےایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم