رسائی کے لنکس

سعودی عرب سے سیکیورٹی ڈیل؛ امریکہ فیصلہ کرنے کے قریب


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • سعودی عرب سے معاہدے پر امریکہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آگے تب تک نہیں بڑھا جا سکتا جب تک تمام امور درست انداز میں اپنے مقام پر نہ ہوں۔
  • اس معاہدے میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے امریکہ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ جدید امریکی ہتھیاروں تک سعودی عرب کی رسائی جیسے مطالبات شامل ہیں۔
  • معاہدے کی صورت میں سعودی عرب چین سے ہتھیاروں کی خریداری روک دے گا۔
  • امریکی حکام کے مطابق ابھی کچھ تفصیلات ہیں جن پر کام جاری ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ہتھیاروں کی فروخت اور سیکیورٹی کا دو طرفہ معاہدہ تاحال نہیں ہو سکا ہے لیکن بائیڈن حکومت اس کے متعلق کسی فیصلے کے قریب ہے۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ اس فیصلے کے قریب ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت اور سیکیورٹی کے دو طرفہ معاہدے کی طرف بڑھا جائے یا وہ اس اقدام پر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے تک سہ فریقی معاہدہ ہونے کا انتظار کرے۔

اس وقت امریکہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ واضح تصویر سامنے آنے تک آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اس وقت غزہ میں جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں حائل ہے۔ بعض مبصرین خطے میں چین کے اثر و نفوذ کو روکنے کے لیے جلد کسی دو طرفہ معاہدے کو بھی اہم قرار دے رہے ہیں۔

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے مندرجات سامنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے خلیج اور واشنگٹن ڈی سی میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اس معاہدے میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے امریکہ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ جدید امریکی ہتھیاروں تک سعودی عرب کی رسائی جیسے مطالبات شامل ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بہت قریب ہیں تاہم یہ معاہدہ اسی وقت ہوگا جب ریاض اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے گا۔

عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا تھا ’’سعودی عرب اور امریکہ اپنے جن معاہدات پر کام کر رہے تھے، میرے خیال میں ہم اس پر کام مکمل کرنے کے بہت قریب ہیں۔‘‘

بلنکن کا کہنا تھا کہ تعلقات معمول پر لانے کے لیے غزہ میں امن اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابلِِ اعتماد راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔

بعض رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مجوزہ معاہدے میں سعودی عرب کے جوہری توانائی پروگرام کے لیے امریکہ کی حمایت شامل ہو سکتی ہے۔

’رائٹرز‘ کے مطابق اس معاہدے کی صورت میں ریاض چین سے ہتھیاروں کی خریداری اور سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی روک دے گا۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تین مئی کو بریفنگ میں تصدیق کی تھی کہ دونوں ممالک معاہدے کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں۔

ان کے بقول ابھی کچھ تفصیلات ہیں جن پر کام جاری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان تفصیلات پر جلد اتفاق ہو جائے گا۔

البتہ انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ اس معاہدے کے ایک حصے پر علیحدہ کام کرنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ حصہ فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق ہے۔

ان کے مطابق سعودی عرب واضح کر چکا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی دو شرائط ہیں جن میں ایک غزہ میں امن اور دوسری فلسطینی ریاست کے قیام کے واضح راستے کا تعین کرنا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدے پر علیحدگی میں آگے بڑھنے پر غور کر رہی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تبادلۂ خیال نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت واضح ہے اور سعودی عرب کو بھی اس کا بالکل ادراک ہے کہ یہ ایک پیکج ڈیل ہے جس میں دو طرفہ امور شامل ہوں گے اور اس میں دو ریاستی حل کا راستہ متعین ہوگا۔

کونسل آف فارن ریلیشنز سے وابستہ اسٹیون کوک نے آٹھ مئی کو امریکہ کے جریدے ’فارن افیئر میگزین‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ سہ فریقی معاہدہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوگا کیوں کہ پھر مستقبل میں واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کا دار و مدار سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات پر ہوگا۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلاہوما کے سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز سے وابستہ جوشوا لینڈز نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے سعودی عرب میں چین کی سرمایہ کاری محدود ہوگی اور امریکہ اپنے سفارت اور سیکیورٹی تعلقات کو یقینی بنا سکے گا۔

ان کے بقول اس معاہدے سے سعودی عرب کو امریکہ کے مزید جدید ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہو رہی ہے البتہ سعودی عرب کو چین سے ہتھیاروں کی خریداری ترک کرنا ہوگی اور بیجنگ کی سرمایہ کاری کو محدود کرنا ہوگا۔

البتہ قطر میں موجود انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ اینا جیکبز کہتی ہیں کہ دو طرفہ معاہدہ سعودی عرب کے لے زیادہ پر کشش ہے۔ اس سے بائیڈن انتظامیہ کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں اور اسرائیل میں تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے جس سے اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے قیام کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اینا جیکبز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے لیے اسرائیل والا حصہ چھوڑ کر امریکہ سے دو طرفہ معاہدہ کرنا زیادہ معنی رکھتا ہے۔ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے اقدام کو سعودی عرب اور خطے میں ہرگز پذیرائی حاصل نہیں ملے گی اور یہ سعودی عرب کے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ غزہ میں جنگ جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG