|
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ ملا سراج الدین حقانی کے درمیان ابوظہبی میں ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کی تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں تاہم تجزیہ کار اسے اہم قرار دے رہے ہیں۔
منگل کو ہونے والی اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والی تصویر میں سراج الدین حقانی کے ساتھ طالبان کے انٹیلی جینس چیف ملا عبدالحق وثیق اور انس حقانی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سراج الدین حقانی متحدہ عرب امارات کا ایک ایسے وقت میں دورہ کر رہے ہیں جب ان کا نام تاحال امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے کی دہشت گردوں سے متعلق فہرست میں شامل ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے اطلاع دینے والے شخص کے لیے ایک کروڑ ڈالر انعام مقرر ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت اور طالبان عموماً معلومات کو خفیہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں اماراتی صدر اور سراج الدین حقانی کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ملاقات سے قبل خلیجی ملک نے طالبان رہنما کو دعوت دینے سے قبل امریکہ کو اعتماد میں لیا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر داؤد خٹک کہتے ہیں متحدہ عرب امارات کے امریکہ کے ساتھ ہمیشہ سے قریبی سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ اس لیے ایک ایسے شخص کو دورے کی دعوت دینا جس کا شمار دہشت گردوں کی فہرست میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے بعد تیسرے نمبر پر ہوتا ہے، اس سے قبل امریکہ سے یقیناً رابطہ ہوا ہو گا۔
داؤد خٹک کے مطابق طالبان حکومت مختلف گروہوں کا مجموعہ ہے اور جب تک ان کا مقابلہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے تھا تو سب متحد تھے۔ لیکن افغانستان کے تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں شاید طالبان رہنما مختلف سیاسی و تنظیمی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے تعلقات ملک کے مضبوط گروہ کے ساتھ ہوں۔ افغانستان کے موجودہ حالات میں سراج الدین حقانی مضبوط شخصیت ہیں۔
سراج الدین حقانی کی مارچ 2022 سے قبل میڈیا میں صرف ایک ہی تصویر دستیاب تھی۔ تاہم وزیرِ داخلہ بننے کے بعد وہ متعدد مرتبہ میڈیا کی نہ صرف سرخیوں کی زینت بنے بلکہ انہوں نے کئی سفارتی ملاقاتیں اور صوبائی دورے کیے ہیں۔
'سراج الدین حقانی مضبوط شخصیت ہیں'
تاحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ سراج الدین حقانی کا یہ دورہ صرف متحدہ عرب امارات تک ہی محدود رہے گا یا وہ کسی دوسرے ملک کا بھی سفر کر سکتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کی کوشش ہوگی کہ 30 جون کو دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں سراج الدین حقانی کے ذریعے طالبان حکومت کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ کو لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار جیسے مسائل کی اہمیت پر اعتماد میں لیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ سراج الدین حقانی نے انسانی حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار جیسے مسائل کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ افغانستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سراج الدین حقانی ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو ان معاملات پر ملا ہبت اللہ کو قائل کر سکتے ہیں۔
اس وقت طالبان قیادت عالمی سطح پر اپنی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے لیے بے تاب ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے طالبان حکومت کے تسلیم کیے جانے کے حوالے سے کچھ بنیادی شرائط عائد کی ہیں۔ جن میں افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کا قیام، لڑکیوں کی تعلیم، خواتین و انسانی حقوق کا احترام اور افغان سرزمین کو دوبارہ سے دہشت گرد گروہوں کے استعمال کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔
اپنے 'ایکس' اکاونٹ سے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان رہنماؤں کے دورۂ امارات سے متعلق کہا ہے کہ اس کے دورے کے دوران دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کے علاوہ سیکیورٹی و صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں متحدہ عرب امارات سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔
طالبان ترجمان کے مطابق مستقبل قریب میں افغانوں کو ویزہ کے اجرا میں سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی اور علاقائی استحکام پر مرکوز کوششوں کے ساتھ افغانستان میں موجودہ سلامتی و استحکام برقرار رکھنے اور افغانستان کی تعمیر نو اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے
افغان دفاعی تجزیہ کار احمد خان اندڑ کہتے ہیں جغرافیائی لحاظ سے افغانستان پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کا انحصار براہِ راست افغانستان کے امن و امان سے جڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان جیسے جغرافیائی اہمیت کے حامل ملک کو آسانی کے ساتھ روس اور چین کے رحم و کرم پر چھوڑ کر انہیں فائدہ اٹھانے دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کی خطے میں روس، ایران اور چین کے ساتھ قربتیں بڑھ رہی ہیں تو ایسے میں امریکہ بھی طالبان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی کوشش کرے گا۔
ان کے بقول، موجودہ حالات میں متحدہ عرب امارات، طالبان حکومت اور امریکہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
احمد خان نے کہا کے خیال میں جب تک امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا، اس وقت تک روس اور چین کی قربتیں شاید اسے معاشی استحکام کا سبب بننے والے مطلوبہ نتائج فراہم نہ کر سکیں۔
فورم