|
افغان طالبان نےتیس جون کو دوحہ میں طے شدہ اقوام متحدہ کی افغانستان کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہرکی ہے لیکن نہ تو انہوں نے اور نہ ہی اقوام متحدہ نے مذاکرات کے کسی واضح ایجنڈے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان نے اپنے وفد کے ارکان کے نام بھی ظاہر نہیں کیے ہیں۔
اس کانفرنس کے بارے میں بہت سے سوال اٹھ رہےہیں۔مثلاً یہ کہ تیس جون کی دوحہ کانفرنس گزشتہ دو کانفرنسوں سے کس طرح مختلف ہو گی؟ کیا طالبان واقعی اس میں شرکت کریں گے ۔ اگر کریں گے تو کن شرائط کے ساتھ ایسا ممکن ہو گا؟ اقوام متحدہ کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے؟ طالبان اور عالمی ادارہ کن موضوعات یا مطالبات کے ساتھ آئیں گے؟ اور سب سے اہم بات کہ آیا طالبان حکمران اقوام متحدہ کے ان مطالبات کو مان جائیں گےجن میں متوقع طور پر سر فہرست لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے حقوق ہونگے۔
کیا یہ کانفرنس گزشتہ کانفرنس سے مختلف ہے؟
"یہ کانفرنس افغانستان سے متعلق گزشتہ دو کانفرنسوں سے اس لیے مختلف ہے کہ اس بار افغان طالبان نے شرکت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے اور توقع ہے کہ ان کی رولنگ کلاس اس میں نہ صرف شرکت کر یگی بلکہ اپنے ملک کے حوالے سے باقاعدہ طور پر اپنی رائے بھی دے گی۔"
یہ کہنا تھا پشاور میں اے ایف پی کے رپورٹر لحاظ علی کا جو سولہ سترہ سال سے صحافت کے پیشےسےوابستہ ہیں اور کےپی کے اور گلگت بلتستان کےساتھ ساتھ افغانستان کے بارے میں باقاعدگی سے رپورٹنگ کرتے ہیں ۔
لحاظ علی نے کہا کہ ابھی تک طا لبان نے یہ تو نہیں بتایا ہے کہ ان کے وفد میں کون شریک ہوگا لیکن توقع ہے کہ افغان وزیر خارجہ براہ راست مذاکراتی عمل کی قیادت کریں گے۔
افغان کمانڈروں کا موقف
لحاظ علی نے کہا کہ ان کی جن افغان کمانڈرو ں سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم وفد میں جس کو بھی بھیجیں گے وہ ایک کلئیر کٹ ایجنڈے کے تحت بھیجیں گے ، جو بلیک اینڈ وائٹ میں ہوگا اور جو ہماری بات منوا سکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میری جن طالبان کمانڈروں سے بات ہوتی ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ کانفرنسوں میں بنیادی طور پر اس لیے شرکت نہیں کی تھی کہ وہاں ان لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا جن کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ان میں حقوق انسانی کے کارکن یا تو یورپ میں ہوتے ہیں یا امریکہ میں اور وہ ایک خاص قسم کا مائنڈ سیٹ لے کر آتے ہیں ۔ انہیں افغانستان اور اس کے بارے میں حقائق کا علم نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک ایجنڈے کے تحت آتے ہیں۔
لحاظ علی نے افغان کمانڈرو ں کے حوالے سے کہاکہ" اگر وہ اس بار بھی ایسا کر رہے ہیں تو وہ کانفرنس میں شرکت کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لئے ان کا مطالبہ ہے کہ وہ ان کے بغیر مذاکرات میں شرکت کرسکتے ہیں۔"
کانفرنس کے متوقع موضوعات
تیس جون کی دوحہ کانفرنس کے بارے میں راولپنڈی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی سیاست اور بین الاقوامی امور کے ماہر، تجزیہ کاربریگیڈئیر ریٹائرڈ امتیاز ملک نے کہا کہ گزشتہ دو کانفرنسوں میں طالبان نے شاید اس لئے شرکت نہیں کی تھی کہ وہ ان کے ایجنڈے سےاتفاق نہیں کرتے تھے۔ لیکن موجودہ کانفرنس جن چیدہ چیدہ موضوعات پر مرکوز ہو گی ان میں افغانستان کے مالی اور اقتصادی مسائل اور بینکنگ اشوز شامل ہوں گے جو افغانستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانےمیں کام آسکتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ" افغانستان کے حالیہ سیلاب بھی گفتگو کا موضوع ہو سکتے ہیں جن سے افغانستان کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے تو افغانستان کی مدد کے معاملات پر بھی بات ہو سکتی ہے۔"
امتیاز ملک نے مزید کہا"وہاں پوست کی کاشت کے متبادل ذریعہ معاش ڈھونڈھنے پر بھی بات ہو سکتی ہے ۔ کلائیمیٹ چینج اور اس کے اثرات جو افغانستان کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں ان پر بھی براہ راست بات ہو سکتی ہے۔"
کانفرنس طالبان سے رابطوں کےتسلسل کا کام دے سکتی ہے۔
امتیاز ملک کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات افغان طالبان سے رابطوں کے ایک تسلسل کا کام دیں گے، "جن کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ لائن آف کمیو نیکیشن کھلی رکھی جائے،مربوط پروگراموں کے تحت بتدریج افغانستان کے حکمرانوں اور لیڈرز کے ساتھ رابطے قائم کیے جائیں تاکہ انسانی حقوق اور خواتین اور دوسرے نسلی گروپس کی طرف ان کے ہارڈلائین روئیے کو قدرے تبدیل کیا جاسکے , زیادہ ریشنلائز کیا جا سکے۔"
خواتین کے حوالے سے مطالبات پر ظالبان کا متوقع رد عمل
اس کانفرنس کے حوالے سے انسانی حقوق کے کارکن مطالبہ کر رہے ہیں کہ طالبان سے کہا جائے کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے وفد میں خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو بھی شامل کرے تاکہ بات چیت میں ان کی نمائندگی ہو ۔ کیا طالبان یہ مطالبات مان لیں گے اور کیا اقوام متحدہ کو اس پر اصرار کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں بریگڈئیر ریٹائرڈ امتیاز ملک نے کہا کہ افغان طالبان نے اب تک یہی کہا ہے کہ ان کی حکومت میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی نمائندگی موجود ہے اس لیے وہ سب کو ریپریزنٹ کرتے ہیں ۔ تو ان کا خیال ہے کہ فی الوقت یہ ممکن نہیں ہے اس پر یو این کو اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔ کیوں کہ اگر زبردستی کی گئی تو افغان طالبان کا قدرتی رد عمل ریزسسٹ کرنا ہوگا۔
بقول انکے،" اقوام متحدہ کو اس بات کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ہم خالصتاً مغربی سوشل اسٹینڈرڈز ایک انتہائی قدامت پسند سوسائٹی پر زبردستی لاگو نہیں کر سکتے ۔ اگر افغان معاشرے پر، افغان حکومت پر، ایلئین اسٹینڈرڈز زبر دستی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اسےقبول نہیں کریں گے ۔ تو اس لئے اس اجلاس کو ایک آغاز سمجھ کر ان کےساتھ تعلقات آہستہ آہستہ بڑھائے جائیں، اور اس کے بعد معاشرے کے دوسرے سیکشنز اور سول سوسائٹی کے دوسرے ارکان کو بھی شامل کیا جائے۔"
تو کیا انہیں انسانی حقوق کے بارے میں بھی قائل کرنے کی کوشش نہ کی جائے؟
اس سوال پر امتیاز ملک کا کہنا تھا انسانی حقوق کے بارے میں بات ضرور ہونی چاہئے اور انہیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات پر عمل کرنے کےلئے قائل کرنےکی کوشش بھی کی جانی چاہئے۔۔
تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "خواتین اور دوسرے طبقوں تک رسائی افغان طالبان کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر سوچے سمجھے اور لانگ ٹرم پراسس کے تحت ان سے اپروچ کریں گے تو کامیابی کےامکانات زیادہ ہیں بجائے اس کے کہ ہر چیز ان پر زبردستی تھوپ دیں۔"
“ یواین کو ان سےلائن آف کمیونیکیشنز کھلی رکھنی چاہیےاور ایسا ایجنڈا رکھنا چاہیے جس پر طالبان خوشی سے کانفرنس میں شامل ہو سکیں۔”
طالبان کی جانب سے خواتین کے حوالے سے مطالبات کو ماننے یا نہ ماننے کے امکان پر بات کرتے ہوئے لحاظ علی نے کہا کہ افغانستان میں بچھلی مرتبہ جو مذاکرات ہوئے تھے ان میں کابل سے محبوبہ سراج نے شرکت کی تھی باقی جو خواتین تھیں وہ ناروے سے اور یورپ کے دوسرے ملکوں سے آئی تھیں ۔ ان کے بارے میں تحفظات بھی تھے ۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتیں ۔
لحاظ علی کا کہنا تھا کہ افغانستان کی رولنگ کلاس بنیادی طور پر اپنی پالیسیوں میں لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے اور ان کا خیال ہے کہ عالمی پالیسی میں ساتھ لے کر چلنے کے بعد ہی کچھ باتیں منوائی جاتی ہیں جو عموماٍ کامیاب رہتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ"اس وقت مجھے توقع نہیں ہے کہ افغانستان کے طالبان وفد کے موقف میں کوئی واضح تبدیلی آئے گی ۔ ہاں وقت کے ساتھ اگر ان کی مین اسٹریمنگ ہوتی ہے تو قع کی جاسکتی ہے کہ خواتین اور بچوں کے حوالے سے عالمی حقوق کی جو مثبت باتیں ہیں ان کے لیے وہ اپنے دروازے کھول سکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ان کو ساتھ لے کر چلنے کے بعد ہی ان سے کچھ باتیں منوا سکتی ہے۔"
لحاظ علی اور امتیاز ملک دونوں کا خیال تھا کہ افغانستان کے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے افغآن طالبان کے ساتھ بین الاقوامی برادری کی رابطہ سازی کے قیام اور اس کا تسلسل اہمیت رکھتا ہے اور دوحہ کانفرنس اس رابطے کی ایک شروعات ہو سکتی ہے۔
لیکن اس شروعات کےلیے اقوام متحدہ کی اسٹریٹیجی کیا ہونی چاہیے؟
اس سوال کاجواب دیتے ہوئے امتیاز ملک نے کہا کہ افغان طالبان نے مذاکرات کےلیے جو مطالبے پیش کیے ہیں ان پر غور کیا جانا چاہیے ۔ وہ اقوم متحدہ کے سینئیر ارکان سے ملنا چاہیں گے لیکن یو این نے اس سے انکار کیا ہے کیوں کہ اس کےنزدیک اس کا مطلب ان کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
تو اسکے لیے یو این کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے ان کی کسی مڈل لیول یا بہتر سطح کے ارکان سے ملاقات کرائی جائے تاکہ ان کی خواہش بھی پوری ہو جائے اور ان کےساتھ کمیو نی کیشن بھی قائم ہو جائے اور افغان طالبان کے ساتھ ایک بڑی اوپننگ بن جائے جس کے ذریعےاسے افغانستان کے تمام طبقوں تک رسائی مل سکتی ہے ۔
دوسرا یہ کہ افغان طالبان کہتےہں کہ ان کے لئے یو این کوئی خصوصی سفیر ڈیپیوٹ نہ کرے جیسا کہ سلامتی کونسل نے فیصلہ کیا ہے تو اس پر بات کی جانی چاہیے۔
لحاظ علی اور امتیاز علی دونوں کا کہنا تھا کہ اگر یواین اور بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ وہ افغانستان بین الاقوامی کمیونٹی کا ایک ذمہ دار رکن بن جائے تو اسے چاہئے کہ وہ "تمام بین الاقوامی سوشل اور ڈیمو کریٹک اسٹینڈرڈز ان پر ایک دم سے زبر دستی لاگو کرنے کے بجائے آہستہ آہستہ ایک بہتر طریقے سے انہیں انگیج کریں۔"
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ا نہیں توقع ہے کہ متقی جیسے لوگ جو مذاکراتی عمل سے گزرے ہیں افغانستان کے کیس کو احسن انداز میں پیش کریں گے ۔
ان کانفرنسوں کا سلسلہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گتریس کی جانب سے مئی 2023 میں افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کو "منظم انداز میں" بڑھانے کی کوشش کے آغاز کے بعد سے شروع ہوا ہے ۔
فورم