|
ویب ڈیسک — خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں توہینِ قرآن کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سوات ڈاکٹر زاہد اللہ کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی سربراہی ایس پی انویسٹی گیشن بادشاہ حضرت کریں گے جب کہ کمیٹی میں ڈسٹرکٹ سیکیورٹی برانچ، انٹیلی جینس بیورو اور آئی ٹی کے ماہرین بھی شامل ہیں۔
مدین میں جمعرات کی شب ہجوم نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح پر توہینِ قرآن کا الزام لگانے کے بعد اسے قتل کر دیا تھا۔
سیاح قتل سے قبل پولیس کی تحویل میں تھا۔ تاہم مشتعل ہجوم نے اسے پولیس کی تحویل سے زبردستی لے جا کر قتل کرنے کے بعد لاش کو جلا دیا تھا۔
ہجوم نے پولیس تھانے میں بھی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد وہاں املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔
مدین پولیس نے جمعے کو واقعے کا مقدمہ درج کیا۔ تاہم سوشل میڈیا پر واقعے کی کئی ویڈیوز کی موجودگی کے باوجود تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی ہے۔
ہفتے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں ایک سیاح کو قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں جلایا گیا۔ اس قسم کے واقعات سیالکوٹ، جڑانوالہ، سرگودھا اور اچھرہ میں بھی ہوئے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کا نوٹس نہ لیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ دین کو معاشرے میں جنونیت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ ہم پہلے ہی دنیا میں صحت، تعلیم اور معیشت میں بہت پیچھے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی فیاض ظفر نے بتایا کہ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاح نے 18 جون کو مدین کے ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا اور 22 جون کو ہوٹل میں پہلے سے موجود کچھ لوگوں نے شور مچا کر سیاح پر قرآن کو نذر آتش کرنے کا الزام لگایا تھا۔
فیاض ظفر کے مطابق مقتول پر توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد پولیس اسے اپنے ہمراہ لے گئی تھی جس کے بعد مساجد اور گلیوں میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مقامی لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے توہینِ قرآن کے اعلانات کیے گئے۔
قومی اسمبلی میں واقعے کا ذکر کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ معاشرہ ایسی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں اسٹریٹ جسٹس اور ماورائے عدالت قتل کے ذریعے دین کے نام کو استعمال کر کے آئین، قانون اور ریاست کے تمام بنیادی اصولوں کو پیروں تلے روندا جاتا ہے۔
اپنی تقریر کے دوران احسن اقبال نے مطالبہ کیا کہ سوات واقعے پر ایوان کی خصوصی کمیٹی بنائے جائے جو اس طرح کے واقعات کا جائزہ لے کر قومی لائحہ عمل مرتب کرے۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود کابینہ کا حصہ ہیں۔ اس معاملے کو کابینہ میں اٹھائیں اور وزیرِ داخلہ کے ذریعے وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا سے حکومتی سطح پر بات کریں۔
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی سوات واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم سیاسی دھینگا مشتی میں اتنے اُلجھ گئے ہیں کہ ہمیں پرواہ ہی نہیں کہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے۔"
سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں جتھوں نے سرگودھا اور سوات میں دو لوگ ہلاک کر دیے۔ یہ خطرناک رجحان سیاسی اور دینی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران توہینِ مذہب کی بنیاد پر لوگوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس قسم کے بیشتر واقعات صوبۂ پنجاب سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں مشتعل ہجوم نے 75 سالہ شخص نذیر مسیح پر توہینِ قرآن کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جو تین جون کو دورانِ علاج اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔
پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی مختلف جیلوں میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں 555 قیدی بند ہیں جن میں 537 مرد اور 18 خواتین شامل ہیں۔
قیدیوں میں سے 505 انڈر ٹرائل ہیں جب کہ ایک خاتون اور 49 مرد قیدیوں کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو چکی ہے۔
فورم