|
انتخابات سے قبل ، بھارت کے قومی میڈیا نے مسلمانوں میں اس بارے میں گہری تشویش کی اطلاع دی تھی کہ اگر ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھاری اکثریت سے جیت گئی، تو وہ ایسی پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہو گی جو مسلمان اقلیت کو مزید پسماندہ کر دیں گی۔
لیکن انتخابات میں بی جے پی کو ہونے والی مایوسی اور اس کے اتحادیوں کے اثر و رسوخ کے پیش نظر،بیشترسیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اب مسلمانوں کے ان خدشات کے پورے ہونے کا امکان نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمان گزشتہ ماہ کے قومی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت کی ناکامیوں کے بعد اپنے مستقبل کو زیادہ محفوظ محسوس کر رہے ہیں ۔
ان قومی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اسے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی تشکیل پر مجبور ہونا پڑا۔
پروفیسر روہت چوپڑا
کیلی فورنیا کی سانتا کلارا یونیورسٹی کے پروفیسر روہت چوپڑا نے وی او اے سے بات کرتے ہوئےکہا ’’سال 2014 میں مودی کی پہلی مدت کے آغاز سے ہی، مسلمانوں کو ریاستی اور غیر ریاستی دونوں عناصر کی جانب سے غیر معمولی تحقیر حق رائے دہی سے محرومی، اور کھلی بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ بی جے پی کے رہنماؤں نے مسلمانوں کو کھلے عام، غدار، درانداز، ہندوؤں کے لیے خطرہ اور اس طرح کےدیگر نام دیے۔"
انہوں نے مزید کہا ، " تاہم، حال ہی میں ختم ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کے اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد، بھارتی سیاست کے بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت اپنی پالیسیوں اور بیان بازی کے ذریعے مسلمانوں کو پہلے کی طرح جارحانہ اور کھلے عام ہدف نہیں بنا سکے گی۔ مسلمان اب ایسے بدترین حالات کے خدشات کے خاتمےکی توقع کر رہے ہیں ۔
پروفیسر اپوروانند
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے، جو صرف پہلا نام استعمال کرتے ہیں، وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی نتائج سے مسلمانوں کو "یقینی طور پر کچھ سکون" ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ،بی جے پی نے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ مودی اور بی جے پی کے دوسرےرہنماؤں کی تقاریر اور تبصرے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوششوں کے سوا کچھ نہیں تھے۔ شکر ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ ظاہر ہو گیا کہ مودی کے انتخابی پلیٹ فارم کو ہندوؤں کی ایک نمایاں تعداد نے مسترد کر دیا ہے۔
2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے، مودی نے ایک ہندو قوم پرست وژن کو فروغ دیا ہے جس نے ملک کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو معاشرے اور ریاست کی طرف سے ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کی شکایت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
گزشتہ عشرے کے دوران، بی جے پی کے زیر اقتدار کئی ریاستوں میں، ہزاروں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو ان کے مالکان کی جانب سے مبینہ طور پر معمولی سےجرائم کے ارتکاب کے بعد بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر دیا گیا۔
بلڈوزرجسٹس
بھارت کی مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے نشاندہی کی کہ حکام نے غیر مسلموں کی ملکیت والی غیر قانونی عمارتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف مسلمانوں کی زیر ملکیت عمارتوں کو نشانہ بنایا۔
سابق ججوں سمیت متعدد قانونی ماہرین نے ’’بلڈوزر جسٹس‘‘ کے نام سے معروف اقدام کو قطعی غیر قانونی قرار دیا۔
پروفیسر سومدیپ سین
ڈنمارک کی روسکلڈ یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کے ایک پروفیسر سومدیپ سین نے کہا کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس " سکون کا سانس لینے کی" وجوہات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ،’’ مسلمانوں کو امید ہے کہ بلڈوزر کی سزا جو ان کے لیے معمول بن گئی تھی اب ماضی کا حصہ بن جائے گی۔ اور، مسلم مخالف قوانین کو منظور کرانا مزید مشکل ہو جائے گی۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ،"ہم نے گزشتہ دہائی میں اسلامو فوبیاکو مرکزی دھارے میں بڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ یہاں تک کہ عمومی طور پر روادار وزیر اعظم نے بھی اپنی انتخابی مہم میں بھارت کی مسلم آبادی کو شیطانی شکل میں پیش کیا ۔ مودی کی ایک بڑی کامیابی سے حکمران جماعت کو اسلامو فوبک پالیسیوں پر عمل کرنے کے لیے اور بھی بڑا سیاسی مل جاتا۔‘‘
تاہم، سین نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ بھارت "کسی جامع سیاست کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ " ان کی انتخابی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ، ہندوتوا طاقتوں کی ایک کلیدی کامیابی ایک ثقافتی تبدیلی رہی ہے جس نےبھارت کے مسلمانوں کو کھلے عام برا قرار دینے کےعمل کو ایک معمول بنا دیا ہے
گئو رکھشا کے دعویٰ دار
گزشتہ عشرے کے دوران دائیں بازو کےہندو نگراں گروپوں نے جنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو گائے کی رکھشا کرنے والے قرار دیا ہے، سینکڑوں مسلمانوں کو مبینہ طور پر گائے کی نقل و حمل اور گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں قتل کیا تھا۔
مسلمانوں نے شکایت کی ہےکہ ان گروپس کے ارکان کو بی جے پی کے سپاہی سمجھا جاتا ہے اور انہیں شاذ و نادر ہی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں۔
اگرچہ انسانی حقوق کے گروپس کو شکایت ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو بعض اوقات ان کے عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک اور نفرت انگیز حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن مودی اس بات سےانکار کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں ایسا کچھ ہوتا ہے ۔
گزشتہ سال مودی نے وائٹ ہاؤس کے سرکاری دورے کے دوران صحافیوں سے بات کرتےہوئے کہا تھا، "ہمارےآئین اور ہماری حکومت اور ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت ڈیلیور کر سکتی ہے۔ جب میں کہتا ہوں "ڈیلیور" تو ذات، عقیدے، مذہب، صنف، کسی بھی قسم کے امتیاز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔"
مارچ میں، مودی حکومت نے شہریت کا ایک متنازعہ قانون نافذ کیا جس کے تحت پڑوسی ملکوں سے بھارت آنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کے تیز تر حصول کی اجازت دی گئی لیکن مسلمانوں کو نہیں دی گئی ۔ ناقدین اور مسلمانوں نے کہا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کےخلاف امتازی سلوک کا مظہر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک، بی جے پی کے سینئر رہنماؤں نے یہ بھی کہا تھاکہ مودی حکومت نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز یا "این آر سی" کے نفاذ کے پراسس میں ہے ، جو ان بھارتیوں کی ایک فہرست ہے جو دستاویزات فراہم کر کے اپنی شہریت ثابت کرسکتے ہیں۔
مسلم رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ این آر سی پراجیکٹ بہت سے بھارتی مسلمانوں کو غیر قانونی غیر ملکی قرار دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
مودی حکومت برسوں سے کہہ رہی ہے کہ ہ وہ ایک ایسا یکساں سول کوڈ، ایک واحدقانون متعارف کرائے گی، جو بہت سے ایسے رسوم و رواج اور قوانین کی جگہ لے گا جن کی پیروی اب مختلف مذہبی گروپ کرتے ہیں۔
مسلم کمیونٹی کے رہنماطویل عرصے سے زور دے رہے ہیں کہ اسے مسلمانوں کو پسماندہ کرنے اور انہیں تنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
حالیہ انتخابی مہم کے دوران مودی اور ان کی جماعت کےارکان پر نفرت انگیز تقاریر اور مسلم دشمنی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ۔ مودی نے مسلمانوں کو درانداز قرار دیا۔ انہوں نے(مسلم) کمیونٹی کو "زیادہ بچے پیدا کرنے والے" بھی قرار دیا ۔
تاہم، انتخابات کے بعد مسلمانوں کے ان میں سے بہت سے خوف ختم ہو گئے ہیں۔
بی جے پی کو اتحادیوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
بی جے پی کے کئی نئے اتحادی شراکت دار سیکولرسمجھے جاتے ہیں اور انہیں مسلمانوں کی کافی حمایت حاصل ہے جو جماعتوں کی جانب سے کسی بھی سخت گیر پالیسی کو مسلم مخالف سمجھتے ہیں۔
بی جے پی کی ایک اتحادی پارٹی ،تلگو دیشم کے رہنما ؤں نے کہا ہے کہ متنازعہ پالیسیوں پر بی جے پی کوئی بھی فیصلہ یکطرفہ طور پر نہیں کرے گی۔
پروفیسر سومدیپ سین کا کہنا ہے کہ "مودی کی قیادت میں، اس کے باوجود کہ وزیر اعظم کو اب اتحادی شراکت داروں کی ضروریات اور خواہشات سےنمٹنا ہو گا ، ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ یہ ثقافتی تبدیلی پوری طرح سےتبدیل ہو جائے گی ۔"
شیخ عزیز الرحمان، وی او اے
فورم