|
پاکستان کی وفاقی حکومت نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم حکومت کو کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے کئی آئینی اور قانون تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔
پیر کو وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تحریکِ انصاف پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کے لیے ممنوعہ فنڈنگ، نو مئی کے واقعات میں ان کی قیادت کے ملوث ہونے، سائفر کا سیاسی استعمال اور بیرونِ ملک پاکستان کے خلاف لابنگ جیسی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف کے خلاف آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
حکومت کے اس اقدام کے سیاسی اثرات زیرِ بحث ہیں تاہم آئینی و قانونی ماہرین کے نزدیک اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے بھی کئی مراحل سے گزرنا ہو گا۔
آئینی و قانونی مراحل
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 17 جماعت سازی سے متعلق ہے جس میں جماعت بنانے اور اس میں شمولیت کو بنیادی شہری حق تسلیم کیا گیا ہے۔
تاہم اس آرٹیکل میں سیاسی جماعت پر پابندی کا بنیادی طریقہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اس شق کے مطابق حکومتِ پاکستان اعلان کر سکتی ہے کہ کوئی جماعت پاکستان کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے تو اس اعلان سے 15 دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجنا ہو گا اور اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔
یہ پورا عمل کس طرح ہوتا ہے؟ اس بارے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ اگر کسی سیاسی جماعت پر ملک میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام ہو یا خلافِ قانون کام کرتی ہو تو وفاقی کابینہ اس بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رپورٹ طلب کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر درج دہشت گردی کے کیسز کا جائزہ لیتی ہے اور شواہد کی روشنی میں اسے تفصیلی رپورٹ یعنی سیاسی جماعت پر پابندی کے لیے چارج شیٹ مرتب کرنا ہوتی ہے۔
اُن کے بقول اگر وفاقی کابینہ کو لگتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے تو پھر کابینہ پابندی کی منظوری دیتی ہے۔ یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی جا سکتا ہے۔ دونوں ایوانوں سے اس پر قراردادیں منظور ہوتی ہیں کہ یہ دہشت گرد جماعت ہے، لہذٰا اس پر پابندی ہونی چاہیے۔
یاسین آزاد کے بقول کابینہ اور پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد وزارتِ داخلہ نوٹی فکیشن جاری کر دے گی کہ مذکورہ سیاسی جماعت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
اُن کے بقول پابندی کے فیصلے پر وزارتِ داخلہ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ لہذٰا حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہی ہوتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 17 میں سیاسی جماعتوں کو اپنے مالی ذرائع بتانے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔
'یہ عجلت میں لیا گیا فیصلہ لگتا ہے'
تجزیہ کار اور سینئر صحافی نصرت جاوید کا ہے کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کا فیصلہ انتہائی عجلت اور غصے میں لیا گیا فیصلہ لگتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایم بی سومرو سے گفتگو کرتے ہوئے نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ چند روز قبل ہی سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں تحریکِ انصاف کا وجود تسلیم کر چکی ہے۔ لہذٰا تحریکِ انصاف کے خلاف حکومت جو بھی چارج شیٹ تیار کرے گی اسے سپریم کورٹ میں ثابت کرنا مشکل ہو گا۔
سینئر قانون دان بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی پر فارن فنڈنگ اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بنیاد پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ 2017 میں تفصیل دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اگست 2022 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی پر بیرون ممالک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد وفاقی حکومت نے تحریکِ انصاف کے خلاف کارروائی کے لیے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت ڈیکلریشن سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔ لیکن یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔
کیا اس معاملے میں الیکشن کمیشن کا بھی کردار ہے؟ اس پر یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی میں ہوں تو پھر وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق مذکورہ جماعت کے اراکین کو الیکشن کمیشن ڈی نوٹیفائی کر دیتا ہے اور وہ رُکن اسمبلی نہیں رہتے۔
پاکستان میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ ماضی میں بھی یہ اقدام ہو چکا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1954 میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی گئی۔
اس جماعت پر یہ الزام تھا کہ اس نے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہو کر ملک دُشمنی کی اور اسی بنیاد پر ملک بھر میں جماعت کے ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
خیال رہے کہ سن 1951 میں پاکستان کے بعض فوجی افسران اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُنہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے سازش کی۔ اسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔
سازش کے الزام میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر کو بھارت واپس بھجوا دیا گیا ۔ پابندی لگنے سے پہلے اس جماعت کے اراکین کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی
دوسری بڑی سیاسی جماعت جس پر پابندی لگی وہ نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ اس جماعت پر دو مرتبہ پابندی لگی ۔ پہلی مرتبہ 1971 میں یحییٰ خان اور پھر 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں پابندی لگی۔
اس جماعت پر بھی ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام عائد کیا گیا ۔ نیپ پر سب سے بڑا الزام اس وقت کے سینئر وزیر صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) حیات خان شیر پاؤ کے قتل کا تھا۔ وہ آٹھ فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران ہلاک ہوئے تھے اور اس دھماکے کا الزام نیپ پر عائد کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے اگلے ہی روز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں دو بلوں کی منظوری حاصل کی جس میں ایک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی گرفتاری کا استثنٰی ختم کر دیا گیا۔
دوسرے بل میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ میں ترمیم کر کے حکومت کو قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی جماعتوں کو خلاف قانون قرار دینے کا اختیار دے دیا گیا۔
اس قانون سازی کے اگلے روز 10 فروری 1975 کو نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس وقت کی حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غیرآئینی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کیا جس میں نیپ کی اس وقت کی قیادت بشمول ولی خان کی طرف سے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ تاہم اعتراضات مسترد کر دیے گئے جس پر انہوں نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور عدالت نے بھی ان پر پابندی کی توثیق کر دی۔
پابندی کی شکار سیاسی مذہبی جماعتیں
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں مذہبی و سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان میں سے بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابی نشان رکھتے ہوئے ماضی میں انتخابات میں بھی حصہ لیتی رہیں اور ان کے ارکان، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی رہے ہیں لیکن ان پر پابندی عائد کر دی گئی۔
حالیہ تاریخ میں پاکستان تحریِک انصاف کی حکومت نے اپریل 2021 میں تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) پر انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔
تاہم تقریباً سات ماہ بعد نومبر 2021 میں ایک ٹی ایل پی کے ساتھ ایک ’خفیہ معاہدے‘ اور حکومتِ پنجاب کی درخواست پر یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔ بعد ازاں ٹی ایل پی نے 2024 کے انتخابات میں بھی حصہ بھی لیا۔
پابندی کا شکار ہونے والی دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ پاکستان بھی شامل ہیں۔
ان میں سے بعض جماعتیں قائدین اور نام بدل کر آج بھی سیاست کر رہی ہیں لیکن پابندیوں کے باعث سیاست میں ان کا کردار محدود ہوا ہے۔
فورم