یہ 30 جنوری 1968 کی بات ہے جب صدر ایوب خان کی کابینہ کے سینئر وزیر خواجہ شہاب الدین ان سے طے شدہ ملاقات کے لیے ایوانِ صدر پہنچے لیکن انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
ایوانِ صدر کی سیکیورٹی اور ماحول دیکھ کر خواجہ شہاب الدین کو شک گزرا کہ راتوں رات یا تو کوئی ناگہانی انقلاب آچکا ہے جس کے نتیجے میں صدر ایوب کو معزول کر کے قید کر دیا گیا ہے یا وہ ایوانِ صدر میں مقتول پڑے ہیں۔
خواجہ شہاب الدین اکیلے ہی اس تشویش میں مبتلا نہیں تھے۔ اسی روز ایوانِ صدر کے ایک ڈرائیور محفوظ علی نے صدر کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کو انتہائی رازداری سے بتایا: ’’رات بھر ایوانِ صدر میں قیامت کا سماں رہا ہے۔ بیگم ایوب سمیت سب بیٹے اور بیٹیاں غمگین، پریشان اور گم صم ہیں۔ ڈاکٹروں کے آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کچھ مشینیں بھی لائی گئی ہیں۔ چار دیواری کے سارے دروازے بند کر کے قفل چڑھا دیے گئے ہیں۔‘‘
صدر ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت سوانح عمری ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ڈرائیور نے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ ’’صاحب ہمیں تو یہ بھی یقین نہیں کہ صدر صاحب زندہ ہیں یا مرچکے ہیں یا مار ڈالے گئے ہیں۔ ہاں ہم یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ صدر کے مکان پر چیف صاحب کا قبضہ ہے۔‘‘
چیف صاحب سے ڈرائیور کی مراد اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل یحییٰ خان تھے جنہیں صدر ایوب نے ہی کچھ عرصہ قبل آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
اس واقعے سے قبل رات کو صدر ایوب خان نے اردن کے شاہ حسین کے اعزاز میں استقبالیہ دیا تھا جس کے دوران ان کی طبیعت بگڑنے کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔ اسی رات انہیں دل کا دورہ پڑ چکا تھا جس کے بعد سے ایوانِ صدر پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے تھے۔
اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر اپنی کتاب ’ایوب خان: فوجی راج کے دس سال‘ میں لکھتے ہیں کہ 29 جنوری 1968 کو ایوانِ صدر اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو فوجی جوانوں نے گھیرے میں لے لیا تھا اور کسی شخص کو صدر کے سیکریٹریٹ کے عملے تک رسائی کی اجازت نہیں تھی۔
صدر ایوب ہر مہینے کے آغاز پر قوم سے خطاب کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی یکم فروری کی تقریر منسوخ کر دی گئی تھی اور اس کے بعد سے روزانہ صدر کے ذاتی معالج کی جانب سے ان کی صحت کے بارے میں معلومات بلیٹن کی صورت میں فراہم کردی جاتی تھیں۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ اس بلیٹن کے باوجود بھی صدر کی بیماری کی تفصیلات واضح نہیں تھیں۔ بالآخر چھ فروری کو پہلی مرتبہ انہیں ایوب خان سے ملاقات کی اجازت ملی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان کے بستر کے قریب دل کی دھڑکن بتانے والی ایک بڑی سی اسکرین نصب کر دی گئی تھی۔ ان کے ساتھ والا کمرہ کسی لیبارٹری کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ فوجی ڈاکٹر ان کی رپورٹس کے معائنے میں مصروف تھے۔
الطاف گوہر نے حالات سے جو اندازہ لگایا اسے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں بیان کیا: ’’حالات اس امر کے شاہد تھے کہ جنرل یحیٰ خان نے یہ سوچ کر کہ ایوب خان شاید بیماری کے اس حملے سے جو دل کے شدید دورے کے سوا کچھ نہیں تھی جانبر نہ ہوسکیں گے، حکومت کو اپنے ذاتی کنٹرول میں لے لیا تھا۔ ملک میں عملی طور پر حکومت دست بردار ہوچکی تھی اور یحیٰ خان اقتدار پر قابض تھے۔‘‘
غلط ہوتے اندازے
صدر ایوب خان کی صحت کے بارے میں بہت سے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ 16 فروری کو ان کی طبعیت اچانک ایک بار پھر شدید خراب ہوگئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ ان کی صحت بحال ہونا شروع ہوئی لیکن وہ پوری طرح تندرست نہیں ہوئے تھے۔
اگرچہ آئندہ ایک ماہ کے دوران ایوب خان کی صحت سنبھل گئی اور انہوں نے معمول کے مطابق یکم اپریل کو قوم کے نام اپنا پیغام بھی ریکارڈ کرایا۔ لیکن اس دوران ان پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ ان کے اقتدار کا سرچشمہ ان کا بنایا ہوا وہ آئین نہیں جس کے تحت انہوں نے حلف اٹھایا تھا، بلکہ صدارتی عہدے کی شہ رگ کمانڈر ان چیف جنرل یحیٰ خان کے ہاتھ میں ہے۔
ایوب خان کی کابینہ میں وزیرِ قانون رہنے والے ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’ڈکٹیٹر کون؟‘ میں لکھتے ہیں کہ قانون و آئین کی اہمیت کیا تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئین میں واضح درج تھا کہ صدر کی بیماری کی صورت میں قومی اسمبلی کا اسپیکر ان کی جگہ فرائض انجام دے گا۔
لیکن بقول قدرت اللہ شہاب اس پورے عرصے میں اسپیکر عبدالجبار خان سے کسی نے یہ تک نہ پوچھا "میاں تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں؟"
صدر ایوب خان نے صحت سنبھلنے کے بعد کام شروع کردیا تھا۔ لیکن قدرت اللہ شہاب کے بقول دواؤں کے اثرات کی وجہ سے ان پر ہر وقت غنودگی چھائی رہتی تھی۔ امورِ حکومت میں ان کی روایتی سمجھ بوجھ اور قوتِ فیصلہ متاثر ہو چکی تھی۔
آئندہ تین چار ماہ تک ان کی صورتِ حال یہی رہی اور وہ جولائی 1968 میں علاج کے لیے لندن گئے۔ اس دوران انہوں نے لندن کے مضافات میں قیام کیا اور جب وہ واپس آئے تو ان کا اعتماد تو بحال ہوچکا تھا لیکن اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔
سیاسی چیلنجز
ایوب خان نے جنوری 1965 میں اپوزیشن کی صدارتی امیدوار اور بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو شکست دی تھی۔ یہ ان کے دورِ اقتدار میں پہلا موقع تھا جب اپوزیشن پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے خلاف جمع ہوئی تھی لیکن وہ اس چیلنج سے کامیابی سے نکل گئے تھے۔
لیکن اسی برس 'آپریشن جبرالٹر' کی مہم جوئی کی وجہ سے ستمبر 1965 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کے بعد ایوب خان کے لیے سیاسی چیلنجز میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا تھا۔
آئین میں واضح درج تھا کہ صدر کی بیماری کی صورت میں قومی اسمبلی کا اسپیکر ان کی جگہ فرائض انجام دے گا۔ لیکن اس پورے عرصے میں اسپیکر عبدالجبار خان سے کسی نے یہ تک نہ پوچھا "میاں تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں؟"قدرت اللہ شہاب
الطاف گوہر کے مطابق 1965 کی جنگ میں پاکستان کو جنگ بندی قبول کرنا پڑی جس کی وجہ سے عوام کو مایوسی کا پیغام ملا۔ بھارت کے ساتھ اس 17 روزہ جنگ میں کسی اعلیٰ فوجی افسر نے مشرقی پاکستان کا دورہ تک نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وہاں احساسِ تنہائی میں اضافہ ہو رہا تھا۔
مشرقی پاکستان میں اگرچہ جنگ بندی کا خیر مقدم کیا گیا تھا لیکن مرکز میں ایوب خان کی حکومت کی مخالفت میں مزید اضافہ ہوا۔
البتہ انہیں اصل مخالفت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب جنوری 1966 میں سوویت یونین کی ثالثی سے تاشقند میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے لیے معاہدہ ہوا اور اس معاہدے میں کشمیر کے تنازع کا کوئی براہِ راست حوالہ شامل نہیں تھا۔ ایوب خان اس معاہدے کو اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے لیکن پاکستان میں اس پر شدید تنقید کی گئی۔
اسی تنقید کی وجہ سے سب سے پہلے جنرل ایوب خان کے اپنے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدے سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی۔
الطاف گوہر اپنی کتاب 'ایوب خان: فوجی راج کے دس سال' میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے بہت جلد اندازہ لگا لیا تھا کہ عوام میں اعلانِ تاشقند پر شدید مایوسی اور غم و غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ اس معاہدے کو کسی صورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مغربی پاکستان میں اعلانِ تاشقند کے خلاف سب سے زیادہ شدید ردِ عمل پنجاب میں دیا جا رہا تھا۔
مغربی پاکستان میں معاہدۂ تاشقند کے خلاف 13 جنوری 1966 سے احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا جو رفتہ رفتہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گیا۔
بھٹو اس صورتِ حال میں خاموش تھے اور ان کی خاموشی سے تاشقند میں ایوب خان کے کردار پر شکوک بڑھ رہے تھے۔
سیاسی منظر نامے پر ابھرتے دو لیڈر
فروری 1966 میں مغربی پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے معاہدۂ تاشقند پر قومی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کو خود مختاری دینے کے مطالبات پر مبنی اپنے مشہورِ زمانہ چھ نکات پیش کیے لیکن کانفرنس میں شریک دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ان پر بحث سے انکار کر دیا۔
اگرچہ سیاسی قیادت باہمی اختلافات کی وجہ سے ایوب خان کے خلاف کوئی مشترکہ لائحۂ عمل طے نہیں کر پائی تھی تاہم مہنگائی اور غذائی قلت کی وجہ سے عوامی سطح پر ایوب خان کی مخالفت میں بدستور اضافہ ہو رہا تھا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے پانچ فروری 1966 کو ذوالفقار علی بھٹو کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ انہیں کابینہ سے الگ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ حکومت سے ان کی علیحدگی حکومت مخالف تحریک کی شدت میں اضافے کا باعث بنے گی۔
وہ لکھتے ہیں کہ بھٹو کے لیے اس سے اچھا موقع کیا ہوتا۔ اب ان کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ وہ ہر روز معاہدۂ تاشقند کے بارے میں کوئی افسانہ تراشتے اور مختلف سیاست دان، سرکاری اہل کار اور صحافی اسے بلا تامل قبول کرلیتے۔
اس طرح وہ یہ تاثر بنانے میں بھی کامیاب رہے کہ وہ ایوب خان کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر معاہدۂ تاشقند پر حقائق بیان کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس دوران خوب عوامی مقبولیت حاصل کی اور 1966 میں ایوب خان کی کابینہ سے الگ ہوگئے اور 1967 میں نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
جنوری 1968 میں ایوب خان کی حکومت نے مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب اور 35 دیگر سول اور عسکری اہل کاروں پر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش کرنے کا الزام لگا کر انہیں گرفتار کرلیا۔ ان رہنماؤں کے خلاف چلنے والا مقدمہ 'اگرتلہ سازش کیس' کے نام سے مشہور ہوا۔
الطاف گوہر کے مطابق اب صورتِ حال یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں صوبائی خود مختاری کے نعرے آزادی کے مطالبے کی شکل اختیار کر چکے تھے اور مغربی پاکستان پر اعلانِ تاشقند کے نتیجے میں بے چینی اور مایوسی کے تاریک سائے پھیل رہے تھے۔ حالات نے ایوب خان کو ایک سیاسی آتش فشاں کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔
ترقی کے 10 سال اور بڑھتا ہوا عوامی احتجاج
ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’ڈکٹیٹر کون؟‘ میں لکھتے ہیں کہ سیاست دانوں نے جب دیکھا کہ ایوب خان اب بیماری سے اٹھ بیٹھے ہیں اور حالات کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں تو انہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ جمہوریت کے اصولوں کو منوانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔
ڈکٹیٹر کے خلاف جلد یا بدیر نفرت کا دو طرفہ عمل ضرور شروع ہوجاتا ہے۔ قوم اپنے ڈکٹیٹر اور ڈکٹیٹر اپنی قوم سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ایس ایم ظفر
وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت تک سیاست دانوں کو اندازہ ہو چکا تھا کہ فوج اب ایوب خان کے ساتھ نہیں ہے لیکن ان کی اکثریت یہ اندازہ نہیں کرسکی کہ فوج نے اب کیا نیا منصوبہ بنایا ہے۔
قدرت اللہ شہاب کے مطابق ایوب خان کے دور کی ترقی کا 10 سالہ جشن ایک سال قبل ہی 28 اکتوبر 1967 میں شروع کردیا گیا تھا جس کی تشہیر کے لیے سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے تھے۔ لیکن اشیائے ضروریہ کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں یہ جشن مذاق بن کر رہ گیا۔
شہاب لکھتے ہیں کہ اشیا کی گرانی اور قلت کے ان ہنگاموں میں ایوبی دور کے 10 سالہ کارناموں کا ذکر بے معنی نظر آنے لگا اور جس حد تک وہ نیک نامی، عزت اور وقعت کے جائز طور پر مستحق تھے وہ بھی انہیں نصیب نہیں ہوسکی۔
قدرت اللہ شہاب کے مطابق مسٹر بھٹو عرصے سے موقع کی تاک میں بیٹھے تھے اور لوہا گرم دیکھ کر انہوں نے ضرب لگائی اور ایوب خان کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا۔
اس دوران طلبہ کی ہنگامہ آرائی بھی اپنے زوروں پر تھی اور اکثر اسکول و کالجز بند رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس احتجاج میں محنت کش بھی شامل ہوتے چلے گئے۔
ایوب مخالف احتجاج میں شدت
اسی دوران اچانک سات نومبر 1968 کو راولپنڈی میں ایک المناک واقع رونما ہوا۔ طلبہ کا ایک گروپ طورخم وغیرہ سے سیاحت کر کے واپس آ رہا تھا۔ راولپنڈی پولی ٹیکنیک پہنچتے ہی پولیس نے انہیں روکا اور الزام لگایا کہ وہ لنڈی کوتل کی باڑہ مارکیٹ سے بہت سا سامان اسمگل کر رہے ہیں اس لیے ان کی تلاشی لی جائے گی۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ پولیس نے خلافِ معمول طلبہ کی تلاشی لینے پر اصرار کیا جس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوگیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی تو پولیس نے گولی چلا دی جس سے ایک نوجوان طالبِ علم عبدالحمید کی موت واقع ہو گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو برق رفتاری سے موقعۂ واردات پر پہنچے۔ انہوں نے عبدالحمید کی لاش کو اس کے آبائی گاؤں پنڈی گھیپ پہنچانے کے لیے ایک بڑا جلوس نکالا۔ اس طرح راولپنڈی کے گرد و نواح میں 70 میل تک جس جس گلی یا قریے سے یہ ماتمی جلوس گزرا، وہاں شہاب کے بقول صدر ایوب کی قسمت کا ستارہ ڈوبتا چلا گیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد صدر ایوب پشاور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ ہجوم میں سے کسی نے ان پر دو گولیاں چلائیں۔ ایوب خان اس حملے میں تو محفوظ رہے لیکن حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ حکومت نے 13 نومبر 1968 کو بھٹو، ولی خان اور دوسرے رہنماؤں کو گرفتار کرلیا مگر ان گرفتاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ شیخ مجیب الرحمن پہلے ہی فوج کی حراست میں تھے۔ بنگالی طلبہ ڈھاکہ میں ان کی رہائی اور اگرتلہ سازش کیس کی واپسی کے لیے بھی بڑے جلوس نکال رہے تھے۔
ملک میں ہر روز کوئی نہ کوئی احتجاج ہو رہا تھا اور اس میں پولیس اور مظاہرین کے تصادم اور اس کے نتیجے میں اموات کی خبریں آ رہی تھیں۔
ان حالات میں بھی ایوب خان کے کچھ وزرا اور گورنر اس امید میں تھے کہ ایوب خان اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے فوج کو سول حکومت کی مدد کے لیے طلب کریں گے مگر ایوب خان بے بسی کے عالم میں کسی معجزے کے منتظر تھے۔
ادھر فوج کے سربراہ یحیٰ خان کا ارادہ کچھ اور تھا۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ اسی زمانے میں جب ایوب خان کی مخالفت نقطۂ عروج پر تھی تو جنرل یحیٰ خان نے ایک محفل میں کہا کہ "اب ہر روز جلوس نکل رہے ہیں۔ لوگ روزانہ سڑکوں پر نعرے لگا رہے ہیں۔ طلبہ کا ہر روز پڑھائی میں ہرج ہو رہا ہے کیوں کہ وہ ان میں شریک ہوتے ہیں۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں کتنا ہر دل عزیز ہوں۔"
ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ یحیٰ خان نے یہ بات ازراہِ مذاق کہی تھی تاہم نادانستگی میں اپنے تحت الشعور میں پنہاں ایک بہت بڑی سیاسی حقیقت کا انکشاف کر دیا تھا جو قوم اور ملک کو آئندہ پیش آنے والی تھی۔
سیاست دانوں سے مذاکرات
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ حالات کو دیکھتے ہوئے جنوری 1969 میں ایوب خان کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک کو اب طاقت سے کچلنا ممکن نہیں ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ صدر ایوب اور ان کے اہلِ خانہ کا بھرم اتنا بگڑ چکا تھا کہ فوج ان کی ذاتی سلامتی کی ذمے داری تو لے سکتی تھی مگر تحفظِ اقتدار میں ان کی مدد نہیں کرسکتی تھی۔اے آر صدیقی
اس لیے انہوں نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ان مذاکرات میں ایوب خان کے سامنے تو سیاسی جماعتیں تھیں لیکن خود ان کی پشت پر کوئی سیاسی قوت نہیں کھڑی تھی۔
ایوب خان نے مارشل لا کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کنونشن لیگ کے نام سے مسلم لیگ کے جس دھڑے کو اپنی سیاسی قوت کے طور پر منظم کیا تھا وہ ان کے کمزور ہوتے اقتدار کو سہارا دینے کے لائق نہیں رہی تھی۔
یہ جماعت صرف ایوب خان کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فورم تھا جس سے انہوں نے 1964 میں صدارتی انتخاب لڑا اور جیتا تھا۔ لیکن یہ کبھی عوامی سیاسی قوت نہیں بن سکی تھی۔
نوابزادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں حزبِ اختلاف کی پانچ سیاسی جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اتحاد قائم کر چکی تھیں۔
اس اتحاد میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور بھٹو کی پیپلز پارٹی شامل نہیں تھیں۔ یہ دونوں جماعتیں نو فروری 1969 کو ڈھاکہ میں جمع ہونے کا اعلان کرچکی تھیں۔
اس سے قبل ایوب خان نے یکم جنوری کو قوم سے خطاب میں اعتراف کیا کہ ان کا بنایا ہوا نظام کوتاہیوں سے مبرا نہیں اور وہ حزبِ اختلاف کے مطالبات پر آئین کی روشنی میں غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ایک طریقے سے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے لیے مفاہمانہ پیغام تھا۔
پانچ فروری کو پی ڈی ایم نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن، صوبائی و قومی اسمبلیوں کے لیے اختیارات، ایمرجنسی کے خاتمے، بنیادی حقوق کی بحالی اور سیاسی بنیادوں پر قید افراد کی رہائی کے مطالبات پیش کر دیے۔
نو جنوری 1969 کو پی ڈی ایم نے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور ولی خان کی نیشنل عوامی لیگ کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی) تشکیل دے دی۔
اس طرح پیپلز پارٹی اور مولانا بھاشانی کی عوامی نیشنل لیگ کے علاوہ ایوب خان کی مخالف سبھی قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں ایک جگہ جمع ہوگئیں۔
فروری 1969 میں ایوب خان نے اپوزیشن جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلانے اور اس کی تفصیلات پر غور کرنا شروع کر دیا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ اس دوران ایوب خان مسلسل پس و پیش کا شکار تھے۔ کبھی مذاکرات کی بات کرتے تھے اور کبھی چند بڑے شہروں میں مظاہروں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی پر زور دینے لگتے۔ اس کی وجہ سے ان کے وزیروں کا رہا سہا حوصلہ بھی ختم ہو رہا تھا۔
انٹیلی جینس رپورٹ
ایوب خان نے 12 فروری کو ایک مختصر سی میٹنگ میں اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے سرکاری وفد کے اراکین کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ الطاف گوہر کا کہنا ہے کہ اسی شام صدر ایوب کو آرمی انٹیلی جینس کی رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ اپوزیشن ان پر ’بغاوت‘ کا مقدمہ چلانے کا سوچ رہی ہے۔
اس رپورٹ پر ایوب خان نے اپوزیشن سے متعلق بددلی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں ملٹری انٹیلی جینس کی یہ رپورٹ یحیٰ خان کی چال تھی جس کے ذریعے وہ ایوب خان کو باور کرانا چاہتے تھے کہ کہ انہیں اپنے بچاؤ کے لیے فوج پر انحصار کرنا پڑے گا۔
اس دور میں فوج کے تعلقاتِ عامہ کے افسر رہنے والے اے آر صدیقی اپنی کتاب ’فوج اور سیاست‘ میں لکھتے ہیں کہ افواج میں کوئی نہیں چاہتا تھا کہ صدر سے آمنا سامنا ہو یا تصادم ہو۔ مگر وہ ساتھ ہی کھلم کھلا ان کا ساتھ دے کر ملکی امور میں خود اپنی ساکھ اور غیر جانب داری کو بھی کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ صدر ایوب اور ان کے اہلِ خانہ کا بھرم اتنا بگڑ چکا تھا کہ فوج ان کی ذاتی سلامتی کی ذمے داری تو لے سکتی تھی مگر تحفظِ اقتدار میں ان کی مدد نہیں کرسکتی تھی۔
انجام کی طرف بڑھتے حالات
گول میز کانفرنس سے قبل 16 فروری کو ایک اور ڈرامائی موڑ آیا۔ صدر کو یہ پیغام موصول ہوا کہ اگرتلہ سازش کیس کے دو ملزمان نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جن میں سے ایک فوجی سپاہیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ بعض حلقوں کی طرف سے اس شک کا اظہار کیا گیا کہ یحیٰ خان کے انٹیلی جینس چیف نے گول میز کانفرنس ناکام بنانے کے لیے یہ ڈراما رچایا تھا۔
ہر صبح دفتر آتے ہوئے یحییٰ خان اور ان کے اسٹاف افسروں کی نظر لان میں بیٹھے ہوئے سابق صدر پر پڑتی تھی۔ ایوب خان کی وہاں موجودگی انہیں ہر لمحہ اپنے جرم کی یاد دلاتی تھی۔الطاف گوہر
اس واقعے کے بعد 'ڈی اے سی' نے گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب کو مدعو کرنے کے لیے زور دینا شروع کر دیا۔ صدر ایوب کو یہ کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑا اور انہوں نے گول میز کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے شیخ مجیب کی رہائی کا مطالبہ تسلیم کرلیا۔ لیکن کئی کوششوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا بھاشانی گول میز کانفرنس میں شرکت پر آمادہ نہیں ہوئے۔
ایوب خان اپوزیشن سے مذاکرات کا ڈول ڈال چکے تھے۔ لیکن ملک کے کشیدہ حالات قابو میں نہیں آ رہے تھے۔ مشرقی پاکستان میں حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو نافذ تھا لیکن اس کی خلاف ورزی معمول بن چکی تھی۔
ایس ایم ظفر کے مطابق اس دوران فوج نے حالات قابو کرنے کے لیے سول انتظامیہ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ حکمران جماعت 'کنونشن لیگ' اتنی بار فوج سے حالات قابو کرنے کا مطالبہ کرچکی تھی کہ اس کا اپنا وقار مجروح ہوچکا تھا۔
انہی حالات میں 19 فروری کو ایوب خان نے کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں صرف ان کے وزرا نے شرکت کی۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ اس اجلاس سے باہر آکر سینئر وزیر خواجہ شہاب الدین نے بتایا کہ "یہ لوگ انتہائی احمقانہ باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب مارشل لا کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ یہ ملک سے غداری ہے۔"
اس کے چند لمحے بعد یحیٰ خان اور چیف آف جنرل اسٹاف کمرۂ اجلاس میں داخل ہوئے۔ حالات اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے تھے۔
مارشل لا کی تیاریاں اور مذاکرات
بریگیڈیئر عبد الرحمن صدیقی لکھتے ہیں کہ صدر سے مذاکرات ہو رہے تھے اور دوسری طرف فوج ہنگامی منصوبہ بندی شروع کر چکی تھی۔ لیکن ان کے بقول یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو صدر کے علم میں نہ تھی یا جسے سازش قرار دیا جا سکے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ٹھوس اور سنگین حقیقت یہ تھی کہ صدر ایوب کے پیر اکھڑ چکے تھے اور انہیں اقتدار کے ہاتھ سے چلے جانے کے ساتھ اب اپنی جان کی بھی فکر لاحق تھی۔ عراق کے جولائی 1958 کے خونی انقلاب میں جو حشر ان کے دوست نوری السعید پاشا اور شاہ فیصل کا ہوا تھا، اس سے صدر ایوب بے حد متاثر بلکہ خوفزدہ تھے اور 1958 میں خود اپنا مارشل لا نافذ کرنے سے پہلے اکثر انتہائی تاسف اور دکھ کے ساتھ اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔
بریگیڈیئر عبدالرحمن صدیقی کی کتاب ’فوج اور سیاست‘ کے مطابق ایوب خان اور مسلح افواج کے درمیان 20 فروری 1969 کو مذاکرات کا آغاز ہوا۔
اس گفتگو میں جنرل یحیٰ خان نے پہلے تو صدر ایوب کو یقین دہانی کرائی کہ فوج ان کے ساتھ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ "آپ حکم دیں اور باقی کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ان بدمعاشوں سے ہم نمٹ لیں گے۔"
الطاف گوہر کے مطابق 21 فروری تک ایوب خان کو یقین ہوچکا تھا کہ وہ سیاست دانوں کو کسی سیاسی حل پر آمادہ نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسی روز اپنی نشری تقریر میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ 1970 کے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ ان کی سیاست سے دست برداری کا اعلان تھا۔
ایوب خان کے وزیرِ قانون ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ انہی دنوں کی بات ہے کہ صدر ایوب نے نہایت بے چارگی سے مجھے بتایا کہ انہوں نے خود اپنے کانوں سے اپنے نواسوں کو ملازم کے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے میدان میں دوڑتے بھاگتے بڑی معصومیت سے ’ایوب ہائے ہائے‘ کے نعرے لگاتے سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوبت یہاں تک آگئی ہے تو اب وہ حکومت میں کیا دلچسپی لے سکتے ہیں۔
ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ ڈکٹیٹر کے خلاف جلد یا بدیر نفرت کا دو طرفہ عمل ضرور شروع ہو جاتا ہے۔ قوم اپنے ڈکٹیٹر اور ڈکٹیٹر اپنی قوم سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
آخری کوششیں
ایوب خان کی آئندہ انتخاب سے دست برداری کے باوجود اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی تیاریاں جاری رہیں۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ 26 فروری کو صدر ایوب اور سیاست دانوں کے درمیان گول میز کانفرنس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جو ابتدائی بات چیت کے بعد 10 مارچ تک ملتوی کر دیا گیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ صدر ایوب نے اس دوران اپوزیشن کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی کئی شرائط قبول کیں۔ خاص طور پر شیخ مجیب الرحمن کو بات چیت پر راضی کرنے کے لیے مشرقی و مغربی پاکستان کے گورنرز تبدیل کر دیے۔
لیکن 10 مارچ کو جب گول میز کانفرنس کا آغاز ہوا تو حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اپنے اپنے مطالبات سامنے رکھے جن میں سے صرف براہِ راست انتخابات اور وفاقی پارلیمانی نظام کی بحالی کے دو مطالبات متفقہ تھے۔
ایوب خان یہ دو متفقہ مطالبات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور اعلان کر دیا کہ وہ ان مطالبات کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اس سے قبل گول میز کانفرنس میں شریک جماعتوں کو متفقہ طور پر ان مطالبات کی تائید کرنا ہوگی۔
شیخ مجیب الرحمن اور ولی خان کے سوا دیگر جماعتوں نے یہ پیش کش قبول کرلی جس کے ساتھ ہی حزبِ اختلاف تقسیم ہوگئی۔ شیخ مجیب نے 'ڈی اے سی' سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کرلی کہ اس نے مشرقی پاکستان کی خود مختاری کے مطالبات کی تائید نہیں کی۔
پھر نواب زادہ نصر اللہ نے یہ کہہ کر 'ڈی اے سی' ہی کو تحلیل کر دیا کہ صدر سے دو بنیادی مطالبات تسلیم کرانے کے بعد اس کا مقصد حاصل ہو چکا ہے۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ واضح ہو چکا تھا کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اب الگ الگ ایوب خان سے مطالبات منوانا چاہتی تھیں۔ ایوب خان نے خود بھی ان جماعتوں کو فرداً فرداً قائل کرنے کی کوشش کی لیکن نہ تو بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور نہ ہی ملکی حالات قابو میں آئے۔
ایک اور مارشل لا
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ 20 مارچ کو ساڑھے آٹھ بجے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا حتمی فیصلہ ہوچکا تھا۔ اب زمامِ کار ایوب خان کی سول حکومت کے بجائے فوجی ’ماہرین‘ کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے اپنا لائحۂ عمل تیار کر رکھا تھا۔ ایوب خان کی کابینہ میں شامل کئی وزیر مارشل لا کے حامی ہوگئے تھے اور یحیٰ خان ان سے اپنی آنے والی حکومت میں کوئی نہ کوئی عہدہ دینے کا وعدہ کر چکے تھے۔
بریگیڈیئر صدیقی لکھتے ہیں کہ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر عام تعطیل تھی اور اسی روز مارشل لا کے نفاذ کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔ فوج کے مختلف ڈویژنز کو ضروری ہدایات جاری کر دی گئی تھیں اور اسی روز مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کا چار رکنی سیکریٹریٹ قائم کر دیا گیا اور اب آرمی کے کمانڈر ان چیف کے نام صدر کے خط کا انتظار تھا۔
ان کے بقول اس خط میں صدر کو یہ اعتراف کرنا تھا کہ وہ حالات سنبھالنے میں ناکام رہے ہیں اور اس لیے فوج سے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی باقاعدہ درخواست کر رہے رہیں۔
ان کے مطابق فروری یا مارچ 1969 میں جنرل یحییٰ اگر چاہتے تو کسی وقت بھی مارشل لا لگا سکتے تھے مگر اس بارے میں انہوں نے جلد بازی سے احتراز کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایوب خان باقاعدہ اور رسمی طور پر انہیں مارشل لا کی دعوت دیں تاکہ اس طرح انہیں اس انتہائی عمل کا شروع میں ہی اخلاقی اور قانونی جواز مل جائے۔ ساتھ ہی وہ بذاتِ خود اس جانب پیش قدمی کی تہمت سے بچ جائیں۔
بریگیڈیئر صدیقی لکھتے ہیں کہ صدر ایوب کا انجام دیکھنے کے بعد یحیٰ خان کی جھجک ویسے بھی قدرتی تھی اور انہیں خدشہ تھا کہ کہیں بالکل شروع ہی میں ان کے مارشل لا کے خلاف پر تشدد ردِعمل اور مزاحمت پیدا نہ ہوجائے۔
بالآخر 25 مارچ کو ایوب خان نے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے لیے فوج کے سربراہ جنرل یحیٰ خان کو خط ارسال کر دیا اور اسی روز انہوں نے اپنی الوداعی تقریر بھی ریکارڈ کرا دی۔
صدر ایوب نے اپنی تقریر کا آغاز اس طرح کیا، "میرے عزیز ہم وطنو! میں آپ سے صدر کی حیثیت سے آخری دفعہ خطاب کر رہا ہوں۔ ملک کو نہایت نازک صورتِ حال کا سامنا ہے۔"
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ انتظامیہ مظاہرین کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ گول میز کانفرنس اس لیے ناکام ہوئی کہ حزبِ اختلاف کسی جمہوری پروگرام پر متفق نہیں۔ ہر سیاست دان کی خواہش ہے کہ عوام کی رضا مندی کے بغیر ان کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں۔ اگر یہ تمام مطالبات مان لیے جائیں تو پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر ختم ہو جائے گا۔
صدر ایوب نے تقریر کے اختتام پر کہا کہ "میری خواہش تھی کہ انتقالِ اقتدار کی جمہوری اور پر امن روایت قائم کر کے جاؤں۔ مگر میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اب فوج کے علاوہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو ملک کو انتشار اور تباہی سے بچا سکتا ہو۔ چناں چہ میں نے کمانڈر ان چیف کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی قانونی ذمے داریاں ادا کریں۔"
بالآخر ایوب خان سے اقتدار بالکل اسی طرح فوج کو منتقل ہوگیا جس طرح 1958 میں اسکندر مرزا کے لگائے گئے مارشل لا کے بعد صدر ایوب نے حاصل کیا تھا۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ایوب خان کا ارادہ تھا کہ وہ تین ماہ تک ایوانِ صدر میں مقیم رہیں گے۔ انہیں توقع تھی کہ اس عرصے میں انہیں ذاتی اسٹاف کی سہولت حاصل رہے گی۔ صدر کا سیکریٹریٹ ایوانِ صدر سے متصل تھا۔ ہر صبح دفتر آتے ہوئے یحیٰ خان اور ان کے اسٹاف افسروں کی نظر لان میں بیٹھے ہوئے سابق صدر پر پڑتی تھی۔ ایوب خان کی وہاں موجودگی انہیں ہر لمحہ اپنے جرم کی یاد دلاتی تھی۔
جنرل یحیٰ خان کے پرنسپل اسٹاف جنرل پیرزادہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ شکایت شروع کردی کہ ایوب خان اب بھی ایوانِ صدر میں بیٹھ کر احکامات دے رہے ہیں اور سرکاری کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں۔
جنرل پیرزادہ نے ایوب خان کو مطلع کردیا کہ ایوانِ صدر میں ان کی موجودگی عوام میں اشتعال کا باعث بن رہی ہے اور ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ شہر چھوڑ دیں۔ ایوب خان کو اس پیغام سے بہت تکلیف پہنچی اور یکم اپریل کو وہ سوات کے لیے روانہ ہوگئے۔
ایوب خان کے دورِ اقتدار پر ان کی کابینہ میں وزیرِ قانون رہنے والے ایس ایم ظفر نے لکھا: "فیلڈ مارشل ایوب خان کو صلاح الدین ایوبی کا نام دیا گیا۔ انہیں پاکستان کا اتا ترک بھی کہا گیا اور فرانس کے صدر ڈیگال کے ہم پلہ بھی سمجھا گیا۔ پاکستان کی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے لیے ایوب خان نے جو کچھ کیا اس کی وجہ سے وہ شاید ان القابات و خطابات کے مستحق بھی تھے۔ لیکن قوم سے یہ اعترافات انہوں نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں کرائے تھے۔ اس لیے ایوب خان کا انجام بھی المناک ہوا جس طرح دوسرے ڈکٹیٹروں کا ہوتا ہے اور یہ القابات جو قوم نے دیے تھے ایک مذاق بن کر رہ گئے۔"
فورم