|
اسرائیل نے پیر کے روز حماس کی جانب سے اس اعلان کے بعد غزہ کی پٹی پر فضا، زمین اور سمندر سے حملے کیے ہیں کہ وہ جنگ بندی کے مذاکرات سے الگ ہو رہا ہے۔ تازہ حملوں کے بعد فلسطینی علاقے میں فی الحال جنگ ختم ہونے کے آثار دھندلا گئے ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے شہری علاقوں، تل الہویٰ، الشیخ عجلین اور الصبرہ کے محلوں پر گولہ باری ہوئی ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے المغراقہ کے علاقے اور وسطی غزہ میں قائم پناہ گزین کیمپ النصیرات کے شمالی مضافات میں بھی گولے برسائے ہیں۔
فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے طبی عملے نے بتایا ہے کہ انہوں نے غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے لمغازی کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد تین بچوں سمیت پانچ افراد کی لاشیں نکالی ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا ہے اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے مشرقی علاقے اور جنوبی شہر رفح پر فائرنگ اور اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے رفح کے مغربی حصوں پر حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ساحلی علاقے میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے رفح اور وسطی غزہ میں چھاپہ مار کارروائیاں کیں ہیں جن میں متعدد عسکریت پسند مارے گئے ۔ فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ روز غزہ کی پوری پٹی پر فضائی حملے کیے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی بحریہ نے غزہ میں اہداف پر فائرنگ کی ہے۔
جنگ بندی مذاکرات میں تعطل
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسلسل گولہ باری اور حملے اس وقت شروع ہوئے جب جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے کسی معاہدے پر جلد پہنچنے کے امکانات میں کمی آ گئی۔
حماس نے، جسے ایران کی سرپرستی حاصل ہے، اور جو گزشتہ نو مہینوں سے اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں لڑ رہا ہے، اتوار کو یہ کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کے مذاکرات سے الگ ہو رہا ہے۔
حماس نے جنگ بندی معاہدے پر بات چیت سے علیحدگی کا فیصلہ، گروپ کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد دیف کو ہدف بنا کر کیے گئے اسرائیلی حملے کے بعد کیا۔ اس حملے میں، غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 92 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اسرائیلی حملے میں دیف کا کیا بنا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ دیف کی ہلاکت کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا جب کہ حماس کے ایک سینئر عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ دیف محفوظ ہیں اور وہ آپریشنز کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے کے قصبے المواصی پر حملے کے بعد عسکریت پسند گروپ حماس کے ایک اور سینئر عہدے دار نے جنگ بندی مذاکرات کی معطلی کی وجہ مذاکرات سے متعلق اسرائیل کے رویے اور عہدے دار کے بقول اسرائیل کی جانب سے کیا جائے والا قتل عام کو قرار دیا ۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہنیہ نے بین الاقوامی ثالثوں کو بتا دیا ہے کہ جب اسرائیل کی حکومت جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پہنچنے کے لیے سنجیدکی کا مظاہرے کرے گی تو حماس مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے نیٹو سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ اسرائیل اور حماس، ان کی پیش کردہ تجویز کے فریم ورک پر مئی میں اتفاق کرنے کے بعد معاہدہ طے کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حماس نے پیر کے روز امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیار فراہم کر کے قتل عام کی حمایت کر رہا ہے۔
حماس کے سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم امریکہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کیونکہ اس کی جانب سے قابض اسرائیل کو فراہم کیے جائے والے ہر طرح کے ممنوعہ ہتھیار فلسطینی بچوں اور عورتوں کا خون بہا رہے ہیں۔
کئی مہینوں سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کے لیے بات چیت امریکہ کی حمایت سے قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری رہی ہے، تاہم اس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
غزہ کی پٹی میں تباہی
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ، گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک بڑے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کے مطابق 1200 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جنگجو واپس جاتے ہوئے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ جن میں سے 116 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، تاہم اسرائیلی فوج کے اندازوں کے مطابق ان میں سے 42 یرغمال ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 38584 افراد ہلاک چکے ہیں اور غزہ کی پٹی کا زیادہ تر حصہ ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
24 لاکھ آبادی پر مشتمل اس فلسطینی حصے میں آبادی کا ایک بڑا حصہ بے گھر ہو گیا ہے اور عارضی خیموں میں رہ رہا ہے، جب کہ علاقے میں پانی، خوراک، ادویات اور صحت کی سہولتوں کی شدید کمی ہے۔
اسکول پر پانچواں حملہ
اتوار کے روز اسرائیلی فورسز نے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں قائم ایک اسکول پر حملہ کیا، جسے بے گھر افراد پناہ کے لیے استعمال کر رہے تھے۔فوج کا کہنا ہے کہ اس عمارت میں عسکریت پسند چھپے ہوئے تھے۔
غزہ کے سول ڈیفنس کے اہل کاروں نے بتایا ہے کہ اسکول پر اسرائیلی حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایک ہفتے کے دوران اسکول کو نشانہ بنائے جانے کا پانچواں واقعہ ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم