|
"والدین نے روس کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد پاکستان ہجرت کی، میری پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی۔ گزشتہ ہفتے افغانستان جانے کے لیے طورخم سرحد پہنچا تو حکام نے جامہ تلاشی کے بعد پی او آر ضبط کر لیا۔ اب میں افغانستان میں پھنس کر رہ گیا ہوں اور پاکستان جانے کے لیے پاسپورٹ بنانے کے علاوہ ویزے کا حصول ایک بہت بڑی مشکل ہے۔"
یہ کہنا ہے پشاور کے علاقے ناصر باغ کے رہائشی شفیق کا جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی اور اُن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے قانونی دستاویز پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ وہ اب کابل میں اکیلے رہ گئے ہیں اور اُن کا سارا خاندان پشاور میں ہے۔
پاکستان نے گزشتہ برس اکتوبر میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو اپنے ممالک جانے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی تھی جس کے باوجود پاکستان سے نہ جانے والے غیر قانونی مہاجرین کو زبردستی ملک بدر کیا گیا تھا. ان میں اکثریت افغان مہاجرین کی تھی۔
اس مہم کے دوران پاکستان میں قانونی طریقے سے مقیم یعنی پی او آر رکھنے والے افغان مہاجرین کو بھی ملک بدر کرنے کی شکایات سامنے آ رہی تھیں۔ تاہم پاکستان کی حکومت نے چند روز قبل ایک فیصلے میں پی او آر رکھنے والے افغان مہاجرین کی پاکستان میں رہنے کی مدت میں جون 2025 تک توسیع کر دی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں پی آو آر کارڈز رکھنے والوں کی تعداد 13 لاکھ سے زائد ہے۔
قیام میں توسیع کا فیصلہ ملک بھر میں قیام پذیر افغان پناہ گزینوں کے لیے اطمینان کا باعث بنا ہے۔
'اُمید ہے کہ اب سکھ کا سانس لے سکیں گے'
گزشتہ 40 سال سے پشاور کے بورڈ بازار میں رہائش پذیر اختیار ولی نے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم اب وہ ایک سال مزید بغیر کسی خوف و ہراس کے پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔
ان کے مطابق وہ گزشتہ دو دہائیوں سے بورڈ بازار میں پرچون کی دکان چلا رہے ہیں۔ تاہم گزشتہ سال پاکستانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد ان کی زندگی بھی مشکل ہو گئی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ وہ پی او آر کارڈ رکھتے ہیں۔ لیکن پولیس نے ایک سال سے تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومتی فیصلے کے بعد وہ سکون کا سانس لے سکیں گے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل پاکستان میں پی او آر کارڈ کے علاوہ تقریباً نو لاکھ ایسے رجسٹرڈ افغان شہری بھی ہیں جو کہ افغان سٹیزن کارڈ کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ بغیر کسی دستاویز کے رہنے والوں کی تعداد تقریبا آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگست 2021 کے بعد سے تاحال اب تک چھ لاکھ افغان باشندے جان بچانے اور بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان منتقل ہو چکے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم تارکینِ وطن کی بے دخلی جاری رہے گی۔
پی او آر کارڈ ضبط کرنے کی شکایات
حکومت کی جانب سے پی او آر کارڈ کے حامل پناہ گزینوں کو ایک سال توسیع کی یقین دہانی کے بعد بھی بعض افغان شہریوں کی جانب سے کچھ تحفظات سامنے آئے ہیں۔ افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ طورخم بارڈر کراسنگ پر پاکستانی حکام ان سے زبردستی پی او آر کارڈ لے کر موقع پر ہی ضائع کر دیتے ہیں۔
چونسٹھ سالہ بادام خان بھی کابل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان کے بقول ان کا خاندان تقریباً 40 افراد پر مشتمل ہے جو پشاور میں مقیم ہے۔
اُن کے بقول ایک ماہ قبل انہیں کسی ضروری کام کی غرض سے اپنے آبائی وطن آنا پڑا۔ لیکن اب وہ ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں جا سکتے جب کہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدہ حالات کے پیشِ نظر سفری ویزہ ملنا ممکن نہیں ہے۔
افغان باشندے صہیب کریمی کے مطابق ان کا پی او آر کارڈ بھی گزشتہ ماہ طورخم بارڈر پر سیکیورٹی حکام نے ضبط کر لیا تھا جس کے بعد قانونی طریقے سے ان کے پاکستان واپس جانے میں پاسپورٹ اور ویزہ جیسی رکاوٹیں حائل تھیں۔ تاہم وہ کسی نہ کسی طریقے سے بذریعہ چمن کراسنگ پاکستان میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد اپنے بچوں سے ملنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے مطابق اپنے ضبط شدہ پی او آر کارڈ کے حصول کے بارے میں انھوں نے حکام کو یہ بتایا کہ ان کا پی او آر کارڈ کہیں گم ہو گیا ہے اس لیے انھیں نیا پی او آر کارڈ فراہم کیا جائے۔ لیکن ریکارڈ چیک کرنے کے بعد ان کو بتایا گیا کہ ان کا پی او آر کارڈ منسوخ کیا جا چکا ہے۔
افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
حکومت کی جانب سے تاحال باضابطہ طور پر اس بابت کوئی حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کا پہلا مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اس سلسلے میں نشاندہی کا عمل جاری ہے۔ ان کے مطابق اس مرحلے پر وہ کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتیں۔
طورخم بارڈر پر متعین ایک سیکیورٹی اہلکار نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جس میں پاکستان میں قیام پذیر افغان باشندوں کے پی او آر کارڈ ان سے چیکنگ کے دوران لے لیے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر آفریدی نے بتایا کہ انہیں بھی اس بابت کچھ شکایات موصول ہوئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کی جانب سے پی او آر کارڈ رکھنے والوں کے لیے ایک سال کی توسیع کا اطلاق افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھنے والوں پر نہیں ہوتا۔
قیصر آفریدی کے مطابق پی او آر کارڈ سفری دستاویز کے زمرے میں نہیں آتا اور یہ صرف پاکستان میں قیام کی ضمانت کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے۔
فورم