|
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے لیے طلبہ کے جاری احتجاج میں جمعرات کو ملک گیر ہڑتال کی جا رہی ہے۔
طلبہ نے بدھ کی شب ہڑتال کی کال ایسے موقع پر دی جب رواں ہفتے سے ملک بھر میں حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس احتجاج کے دوران اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 16 تک پہنچ گئی ہے جب کہ سینکڑوں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
حکام نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ صرف جمعرات کو پولیس سے جھڑپوں کے دوران 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے بڑے انگریزی اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق ہڑتال کے دوران جمعرات کی صبح ہی دارالحکومت ڈھاکہ سے ملک کے دیگر علاقوں کا شاہراہوں کے ذریعے رابطہ منقطع ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ کے بڑے بس اڈوں پر اکثر سروسز کے کاؤنٹرز بند ہیں جب کہ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کو بسوں کے مالک نے مطلع کیا ہے کہ آج کوئی بھی بس نہ چلائی جائے۔
بنگلہ دیش میں زیادہ تنخواہوں اور پرکشش مراعات کی سول سروسز کی ملازمتوں کا نصف سے زیادہ حصہ کوٹے میں چلا جاتا ہے۔
سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹہ آزادی کے ہیروز کے اہلِ خانہ کے لیے مختص ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا جب کہ 10 فی صد کوٹہ خواتین کے لیے اور 10 فی صد مخصوص اضلاع کے لیے رکھا گیا تھا۔ اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے مجموعی طور پر چھ فی صد کوٹہ مقرر ہے۔
طلبہ کا مطالبہ ہے کہ سول سروسز میں اقلیتوں اور معذور افراد کے کوٹے کے سوا تمام کوٹے ختم کیے جائیں۔
طلبہ سرکاری نوکریوں پر باقی تمام اسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
طلبہ نے جمعرات کو ہڑتال سیکیورٹی اداروں کی جانب نے ان کے خلاف کیے گئے ایکشن کے سبب کی ہے۔ طلبہ اب تعلیمی اداروں کو’کرائم فری‘ کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
اخبار ’ڈیلی اسٹار‘ کے مطابق جمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کی مقامات سے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جمعرات کو ڈھاکہ کے میر پور-10 انٹر سیکشن پر حکمران جماعت عوامی لیگ کا جلسہ بھی منقعد کیا گیا۔ لیکن احتجاج میں شریک طلبہ کی بڑی تعداد نے جلسے کے مقام پر پہنچ کر اسے ختم کرا دیا۔
رپورٹس کے مطابق جلسہ گاہ کے قریب پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لیکن انہوں نے کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی۔ مشتعل طلبہ نے عوامی لیگ کے جلسے کے لیے لگائی گئی کرسیاں اور دیگر ساز و سامان بھی توڑ دیا۔
ملک کے کئی علاقوں سے موبائل ٹیلی فون سروسز اور انٹرنیٹ کے معطل ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ملک بھر کی جامعات میں فور جی نیٹ ورک گزشتہ تین دن سے بند ہے۔ بنگلہ دیش میں لگ بھگ 13 کروڑ موبائل فون صارفین ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بنگلہ دیش کی لگ بھگ 17 کروڑ آبادی میں تین کروڑ 20 لاکھ افراد روزگار یا تعلیم سے محروم ہیں۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے کوآرڈینیٹر ناہید الاسلام نے ’رائٹرز‘ سے گفتگو میں کہا کہ طلبہ احتجاج کے دوران جمعرات کو مکمل ہڑتال کر رہے ہیں۔ اس دوران تمام املاک بند رہیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران اسپتال اور ایرجینسی سروسز بحال رہیں گی جب کہ ایمبولینس سروسز کو اجازت ہو گی۔
ڈھاکہ میں تین پہیوں والی سائیکل رکشہ چل رہی ہے اور لوگ سفر کے لیے اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔
حکام نے بدھ کو ہی ملک بھر میں سرکاری اور نجی جامعات کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
حکومت نے ہنگاموں پر قابو پانے والی پولیس اور سرحدوں پر تعینات ہونے والی پیرا ملٹری فورسز ’بارڈر گارڈز‘ کو یونیورسٹیوں میں تعینات کر دیا ہے۔ حکام کا مؤفف ہے کہ یہ تعیناتی ہنگامہ آرائی پر قابو پانے اور امنِ عامہ کی صورتِ حال بحال رکھنے کے لیے کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ کی رواں برس جنوری میں مسلسل چوتھی بار قائم ہونے والی حکومت کے لیے طلبہ کا حالیہ احتجاج پہلا بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔ جنوری میں ہونے والے انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) سمیت حزبِ اختلاف کی اکثر جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔
وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے بدھ کو خطاب کرتے ہوئے پولیس تشدد سے طلبہ کی اموات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ ماہ سات اگست کو سپریم کورٹ حکومت کی اپیل کی سماعت کرے گی جو اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی ہے۔
گزشتہ ماہ جون میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے 1971 کی جنگ کے ہیرو قرار دیے گئے افراد کے اہلِ خانہ کے لیے سول سروسز میں 30 فی صد مخصوص کوٹے کو بحال کیا تھا۔ حکومت نے 2018 میں شدید احتجاج کے بعد یہ کوٹہ منسوخ کیا تھا۔ ہائی کورٹ سے کوٹہ دوبارہ بحال ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اسے عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔
شیخ حسینہ نے اپنے خطاب میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک تحمل کا مظاہرہ کریں۔
واضح رہے کہ احتجاج نے شدت اس وقت اختیار کی تھی جب وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
شیخ حسینہ 2009 سے بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم اور ملک کی آزادی کی تحریک میں قیادت کرنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔
اقوام متحدہ، امریکہ سمیت انسانی حقوق کے مختلف گروہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا ہے کہ پر امن مظاہرین کی حفاظت کی جائے۔ پر امن احتجاج ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
واضح رہے کہ احتجاج کے دوران مظاہرین اور برسرِ اقتدار جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے درمیان بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔