|
ویب ڈیسک _ بنگلہ دیش نے منگل کو احتجاج کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں چھ طلباء کی ہلاکت کے بعد ملک بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں کو لایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں پولیس نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے کوٹے پر ہونے والے احتجاج کے درمیان حریف طلباء گروپوں میں پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم چھے مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ اس سے ایک روز پہلے 400 سے زیادہ افرادزخمی ہونے تھے۔
یونیورسٹی کے طلباء کی حکمران عوامی لیگ کی حمایت کرنے والے احتجاج مخالف مظاہرین کے ساتھ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑائی کے درمیان پولیس نے آنسو گیس استعمال کی اور اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
بین الاقوامی مذمت
اقوامI متحدہ کے سiکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مظاہرین کو کسی بھی قسم کے خطرے یا تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرے۔
ان کے ترجمان کے مطابق، گوتریس نے کہا، "پرامن طریقے سے مظاہرہ کرنے کا اہل ہونا ایک بنیادی انسانی حق ہے اور حکومت کو ان حقوق کا تحفظ کرنا چاہیے۔"
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بنگلہ دیش پر زور دیا ہے کہ وہ "تمام پرامن مظاہرین کی حفاظت کی فوری ضمانت دے۔"
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی "پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد" کی مذمت کی، جس کی بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے مذمت کی۔
یہ پرتشدد واقعات، اسٹوڈنٹس کی جانب سے احتجاجی دھرنوں اور اسٹریٹ مارچ کی ایک ہفتہ طویل مہم کو روکنے کی کوششوں میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم اور اعلیٰ عدالت کی طرف سے طلبا کی کلاس میں واپسی کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا ہے۔
اس ماہ تقریبأ روزانہ ہونے والے مظاہروں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس میں سول سروس کی نصف سے زیادہ پوسٹیں مخصوص گروپوں کے لیے ریزروڈ ہیں، جن میں پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ آزادی کے ہیروز کے بچے بھی شامل ہیں۔
ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں پانچ طلباء کی ہلاکت
چٹاگانگ میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر محمد تسلیم الدین نے اے ایف پی کو بتایا، "تینوں کو گولیوں کے زخم آئے تھے۔" انہوں نے یہ بھی بتایا کی "تقریباً 35 افراد زخمی ہوئے۔"
اسٹوڈنٹس کےحریف گروپوں نے دارالحکومت ڈھاکہ کے آس پاس کئی اہم مقامات پر مارچ کی، کچھ نے ایک دوسرے پر بتھراؤ کیا، 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں ٹریفک تقریباً جام ہو کر رہ گیا۔
انسپکٹر بچو میا نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ ڈھاکہ کالج کے باہر ایک طالب علم کو ہلاک کر دیا گیا اور کم از کم 60 افراد زخمی ہوئے۔
شمالی شہر رنگ پور میں پولیس کمشنر محمد منیر الزمان نے اے ایف پی کو جھڑپوں میں ایک طالب علم کی ہلاکت کی اطلاع دی۔
تاہم انہوں نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ طالب علم کی موت کیسے ہوئی، انہوں نے کہا کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں فائر کیں اور آنسو گیس استعمال کی۔
رنگپور میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر یونس علی نے کہا کہ "طالب علم کو دوسرے طلباء مردہ حالت میں اسپتال لائے تھے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "اس کے جسم پر زخموں کے نشان تھے۔"
شہر کی روکیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم رپورٹر توحید الحق صیام نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکمراں جماعت کے حامیوں نے کوٹہ کی مخالفت کرنے والے مظاہرین پر حملہ کیا، جبکہ پولیس نے شاٹ گنوں سے ربڑ کے پیلٹ فائر کیے۔
صیام نے کہا، "پولیس نے مظاہرین پر اپنی شاٹ گنوں سے گولیاں چلائیں،" انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود زخمی ہو گئے تھے۔
بقول انکے ہلاک ہونے والا طالب علم "فائرنگ میں مارا گیا تھا"، لیکن صیام کے بیان کی تصدیق کرنا ممکن نہیں تھا۔
پانچ بڑے شہروں میں نیم فوجی بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کی تعیناتی
منگل کو کچھ اہم شاہراہوں کو مظاہرین نے بلاک کر دیا، حکام نے ڈھاکہ اور چٹاگانگ سمیت پانچ بڑے شہروں میں نیم فوجی بنگلہ دیش بارڈر گارڈ (بی جی بی) فورس کو تعینات کر دیا ہے۔
بی جی بی کے ایک ترجمان نے کہا کہ انہیں کوٹہ کے خلاف احتجاج کے پیش نظر امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
'پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد'
اس ماہ کے تقریبأ روزانہ ہونے والےمظاہروں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے جس میں سول سروس کی نصف سے زیادہ پوسٹیں مخصوص گروپوں کے لیے مخصوص ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے حکومت کے حامی گروپوں کے بچوں کو فائدہ ہوتا ہے جو 76 سالہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی پشت پناہی کرتے ہیں.
منگل کی جھڑپیں ڈھاکہ میں کوٹہ مخالف مظاہرین اور حکمران عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے ارکان کے درمیان تصادم کے ایک دن بعد ہوئی ہیں جس میں 400 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
یہ رپورٹ ایجنسی فرانس پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے۔
فورم