|
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نائب صدر کے لیے حال ہی میں نامزد کردہ امیدوار سینیٹر جے ڈی وینس کو بدھ کی رات ریپبلیکن نیشنل کنونشن میں اسٹیج پر مرکزی حییثیت حاصل رہی اور انہوں نے ایک انتہائی اہم تقریر کی جس کا فوکس اس دن کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے موضوع، “Make America Strong Again” یعنی "امریکہ کو دوبارہ مضبوط بنائیں,"پر رہا۔
ٹرمپ کو بہت زیادہ سراہتے ہوئے، وینس نے نائب صدر کے امیدوار کے طور پر اپنی پارٹی کی نامزدگی باضابطہ طور پر قبول کر لی۔
انہوں نے کہا،" صدر ٹرمپ امریکہ کی اس چیز کی بحالی کی آخری بہترین امید کی نمائندگی کرتے ہیں جو کھو گئی تو دوبارہ کبھی نہیں ملے گی۔ ایک ایسا ملک جہاں محنت کش طبقے کا ایک نوجوان، طاقت کے ایوانوں سے دور پیدا ہونے کے بعد آج اس اسٹیج پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئندہ نائب صدر کے طور پر کھڑا ہو سکتا ہے۔"
ٹرمپ کی بے حد تعریف کرتے ہوئے وینس نے نائب صدر کے امیدوار کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی باضابطہ طور پر قبول کر لی۔
انہوں نے کہا،" صدر ٹرمپ امریکہ کی اس چیز کی بحالی کی آخری بہترین امید کی نمائندگی کرتے ہیں جو کھو گئی تو دوبارہ کبھی نہیں ملے گی۔ ایک ایسا ملک جہاں ورکنگ کلاس کا ایک نوجوان، طاقت کے ایوانوں سے دور پیدا ہونے کے بعد آج اس اسٹیج پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئندہ نائب صدر کے طور پر کھڑا ہو سکتا ہے۔"
اپنی تقریر میں وینس نے چین سے لاحق خطرات پر تفصیل سے گفتگو کی مگر روس کےیوکرین پر حملے یا غزہ کی جنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ تاہم Reaganite ریپبلکنز کے ساتھ اتفاق کیلئے، جو امریکہ کی مداخلت کے حامی ہیں اور جن کے یوکرین سے متعلق نظریات وینس کے اپنے نظریات سے متصادم ہیں، انہوں نے ایک ایسی پارٹی کیلئے اپیل کی" جو نظریات پر بلا خوف بحث کرسکے۔"
39سالہ سابق "وینچر کیپیٹلسٹ" کو عوامی منصب سنبھالے ابھی دوسال سے بھی کم عرصہ ہوا ہے اور خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ان کے حالیہ بیانات زیادہ تر ٹرمپ کے’امریکہ فرسٹ' نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان کے عالمی نظریے کا ا ظہار بھی جس کا خلاصہ اسرائیل کے حامی اور چین کے مخالف کے طور پر کیا جا سکتا ہے ، یورپ میں بے چینی کا باعث ہو سکتا ہے۔
عراق میں خدمات انجام دینے والے سابق میرین وینس، بیرونِ ملک امریکہ کی فوجی مداخلت کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں اور اسرائیل کے سوا زیادہ تر غیر ملکی امداد کی مخالفت کرتے ہیں۔ان کی دلیل ہے کہ امریکہ بیک وقت یو کرین اور مشرقِ وسطیٰ کی امداد اور مشرقی ایشیا میں ممکنہ واقعات کے لیے تیار نہیں رہ سکتا۔
فروری میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا،"یہ سمجھ سے باہر ہے" اور "اسلحہ کی تیاری کے حوالے سے اعدادوشمار سے مطابقت نہیں رکھتا۔"
ایما ایشفورڈ، اسٹمسن سینٹر میں Reimagining U.S. Grand Strategy program میں سینئیر فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وینس تنہائی پسند نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں۔
حال ہی میں Quincy Institute for Responsible Statecraft میں ایک تقریر کے دوران وینس نے اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف بیان کیے۔
انہوں نے کہا، "ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیلی اور سنی, دنیا میں اپنے خطے کی خودحفاظت کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یورپی، دنیا میں اپنے خطےکی خود حفاظت کریں اور ہم مشرقی ایشیا پر زیادہ توجہ دینے کے قابل ہونا چاہتے ہیں۔"
ایشفورڈ نے وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا،" آپ انہیں یا تو حقیقت پسند یا شاید ترجیحات رکھنے والا کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بائیڈن انتظامیہ کے پالیسی سازوں کے بالکل برعکس ہے،" جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر خطہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور امریکہ کو ان تمام خطوں میں قیادت کرنی ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "اور یہ یقیناً امریکہ میں سرد جنگ کے بعد کی خارجہ پالیسی سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔"
تاہم وینس کا امریکہ کو یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سے دور کرنا اور چین پر توجہ مرکوز کرنا کوئی نئی بات نہیں نہ ہی یہ صرف ریپبلکنز سے مخصوص ہے۔ سابق صدر باراک اوباما نے بھی 2009 سے 2017 تک ایشیا کو محور بنانے کے نظریے کی کوشش کی تھی۔
امریکہ کے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ، دونوں کے تنازعوں میں الجھنے کے باعث اس کا محور عمل میں آنا ابھی باقی ہے۔
یوکرین کے لیے امداد میں کمی
ترجیحات کی بات کریں تو وینس ٹرمپ کے اس اصرار سے وابستگی رکھتے ہیں کہ واشنگٹن کو یوکرین کی امداد میں کمی کردینی چاہئیے اور یورپینز کو مجبور کرنا چاہئیے کہ وہ اپنے برِ اعظم کی سلامتی کے لیے زیادہ بڑا کردار ادا کریں۔
میونخ میں وینس نے یہ کہہ کر یورپی سفارتکاروں کو ششدر کر دیا کہ" میں نہیں سمجھتا کہ ولادی میر پوٹن یورپ کے لیے کوئی سنگین خطرہ ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کیف کو ماسکو کے ساتھ "امن مزاکرات" کرنے چاہئیں خواہ اس کا مطلب علاقے سے دست بردار ہونا ہی کیوں نہ ہو۔
اس پر یوکرین میں امریکہ کے سابق سفیر جان ہربسٹ نے جو اب اٹلانٹک کونسل یوریشیا سینٹر کے سینئیر ڈائریکٹر ہیں، تنقید کی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ہربسٹ نے کہا کہ وینس، "پوٹن کے روس سے قطعی بے خبر ہیں۔"
ٹرمپ اپنے اس بیان سےکہ وہ ان ممالک کی حفاظت نہیں کریں گے جو نیٹو کے دفاعی اخراجات کے اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، پوٹن کو ان پر حملہ کرنے کی ترغیب تک دیتے ہوئے دکھائی دئیے، یوکرین پر وینس کی تنقید اور ٹرمپ-وینس انتظامیہ کے امکان نے پورے یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
تاہم ہربسٹ پھر بھی پر امید ہیں۔
انہوں نے کہا، یوکرین ٹرمپ کی پہلی ترجیح نہ سہی مگر وہ خود کو ایک مضبوط شخص سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ انہیں خارجہ پالیسی کی ناکامی سے منسلک کیا جائے۔ ہربسٹ کا کہناتھا،" ٹرمپ کی صدار ت میں اگر روس کو یوکرین میں فتح حاصل ہو گئی تو یہ بہت حد تک خارجہ پالیسی کی ناکامی جیسی ہوگی۔"
اسرائیل کے لیے زیادہ حمایت
وینس نے اپنی پہچان امریکہ فرسٹ کے ایک کلیدی حامی کے طور پر کروائی ہے۔ اسرائیل ایک استثنیٰ ہو سکتا ہے۔اپنے مسیحی عقائد کے حوالے سے وینس، صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں اسرائیل کے زیادہ کٹرحامی ہیں جو فوجی امداد جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں اور اسرائیل کے جنگی طرز عمل پر قدغن کی مخالفت کرتے ہیں۔
برائن کیچولس مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایک سینئیر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں،"اسرائیل کے لیے وینس کی مضبوط حمایت آج کی ریپبلکن پارٹی میں کچھ قدامت پسند ایوینجیلکل نظریات کی اہمیت کی عکاس ہے، اور ساتھ ہی سفید فام مسیحی قوم پرست سوچ کی عکاسی بھی جو پارٹی پر ٹرمپ کی گرفت کے تحت پروان چڑھی ہے،"
وینس نے بش انتظامیہ کے تحت شروع ہونے والے امریکہ کے نئے قدامت پسندانہ اندازِ فکر کو "حکمت عملی اور اخلاقی طور پر احمقانہ" کہتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔ تاہم ایسے میں جبکہ وہ کسی اور مقام پر امریکی مداخلت کے خلاف ہیں، ایران کی مزاحمت اور خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے کی غرض سے انہوں نے اسرائیل اور سنی مسلم ریاستوں کے اتحاد کے لیے، امریکی فوجی وسائل خرچ کرنے کی ایسی ہی حکمت عملی کی وکالت کی ہے۔
کیچولس نے ریپبلکن پارٹی کے نامزد نائب صدر کےعالمی نظریے پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی ہے کہ" یہ حقیقی دنیا میں امریکی مفادات اور اقدار کے تحفظ کے لیے جو کچھ ضروری ہے،اس بارے میں کسی اصل مربوط عالمی نظریے کے بجائے، افغانستان اور عراق کی جنگوں کے بعد امریکہ میں ابھرنے والے تنہائی پسند کیمپوں کے مبہم اور بے چین عکس کے بارے میں پارٹی بازی کی بنیاد پر کی جانے والی بحث ہے۔"
اسی دوران کیچولس نے کہا کہ نومبر میں ٹرمپ اور وینس کے کامیاب ہونے کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ میں مصروفِ عمل لوگ"زیادہ غیر یقینی، بے ربطی اور الجھن کی پیش بینیکر رہے ہیں۔
چین کے لیے سخت رویہ
مقبول یادداشت، Hillbilly Elegy, کے مصنف وینس، جس پر بعد میں فلم بھی بنی، اس معاشی نقصان کے ساتھ زندگی بسر کر چکے ہیں جو صنعتی زوال کے باعث امریکہ کے بعض حصوں کو اٹھانا پڑا۔
بدھ کے روز ریپبلکن نیشن کنونشن میں اپنی تقریر میں وینس نے بائیڈن کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا، " ہمارے ملک میں سستی غیر ملکی مزدوری والی ارزاں چینی اشیاء کا طوفان آگیا،اور آنے والے عشروں میں ہلاکت خیز چینی فینٹینل۔بائیڈن کی نا اہلی کی قیمت میری کمیونٹی کو چکانی پڑی۔
انہوں نے ٹرمپ کا یہ الزام دہرایا کہ چین امریکہ سے مینو فیکچرنگ ملازمتیں چھین رہا ہے خاص طور پر ملک کے وسط مغربی حصے سے جہاں سے ان کا تعلق ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم امریکی ورکرز کی اجرتوں کی حفاظت کریں گے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کو امریکی شہریوں کے بل پر اپنے متوسط طبقے کی تعمیر نہیں کرنے دیں گے۔"
ڈین چن، راماپو کالج آف نیو جرسی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "وینس نے چینی درآمدات اور سرمایہ کاری پر مزید معاشی پابندیوں اور محصولات کی حمایت کی ہے۔"
انہوں نے کہا،" میں توقع کرتا ہوں کہ چین کے بارے میں ان کا موقف، ممکنہ نئی انتظامیہ میں ٹرمپ کے قوم پرستوں سے مطابقت میں ہوگا
وینس نے امریکی سینٹ میں، امریکہ کی مالی منڈیوں تک چین کی رسائی پر پابندی اور امریکہ کی اعلیٰ تعلیم کو بیجنگ کے اثر سے محفوظ رکھنےکا بل پیش کیاتھا۔
وینس نے ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں گزشتہ سال ایک تقریب کے دوران کہا تھا، "جس چیز کو روکنے کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے تائیوان پر چینی حملہ۔"
انہوں نے کہا،"یہ اس ملک کے لیے تباہ کن ہوگا۔ اس سے ہماری پوری معیشت تباہ ہو جائے گی۔ یہ اس ملک کو ایک عظیم کساد بازاری کی طرف لے جائے گا۔
یہ ٹرمپ کے مقابلے میں بہت زیادہ واضح موقف ہے، جنہوں نے مختلف اوقات میں کہا ہے کہ اگر بیجنگ نے حملہ کیا تو وہ تائی پے کے دفاع کے لیےنہیں آئیں گے۔
واشنگٹن کا تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہے لیکن وہ جمہوری طور پر خود مختار جزیرے کو "اس کے دفاع کی کافی صلاحیت" کو برقرار رکھنے کے لیے ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
جون میں بلومبرگ بزنس ویک کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تائی پے امریکہ کو اپنے دفاع کے لیے ادائیگی کرے۔
انہوں نے کہا،" آپ جانیے ہم انشورنس کمپنی سے مختلف نہیں ہیں۔ تائیوان ہمیں کچھ نہیں دیتا۔"
ایشفورڈ نے کہا کہ تائیوان کی پالیسی ایک طرف ، ٹرمپ-وینس انتظامیہ میں "چین یا حتیٰ کہ یورپ پر نئے محصولات" کے ساتھ" سب سے بڑا جھٹکا تجارتی پالیسی ہو سکتی ہے،
انہوں نے کہا، "یہ کافی انتہا پر ہو سکتی ہے۔"
وائس آف امریکہ نیوز۔
فورم