’ میری کٹی ہوئی ٹانگ میرے خاندان کی طرح جنت میں ہے ‘ ۔یہ کہنا تھا غزہ سے علاج کےلیے قطرمنتقل ہونے والی چھ سالہ مریم کا جو فروری میں غزہ میں اپنے گھر پر ایک اسرائیلی حملے میں اپنے ماں باپ، بھائی اور اپنی دائیں ٹانگ کھو چکی ہیں۔
اپنی نئی وہیل چئیر پر رنگ برنگے پھولوں کے پرنٹ کی اسکرٹ پہنے دوحہ کے ثمامہ کمپلیکس کے ارد گرد گھومتی ہوئی اور کسی بھی جاننے والے کو دیکھ کرمسکراتی ہوئی مریم جس کی کٹی ہوئی ٹانگ سے اوپرکاحصہ اسکرٹ سے جھانکتاہوا نظر آرہا ہے ،عزم کی ایک تصویر دکھائی دیتی ہیں ۔
وہ اس کمپلیکس میں موجود لگ بھگ ان دو ہزار بچوں میں شامل ہیں جو غزہ کے جنگی میدانوں سےدور ایک نئی زندگی میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مریم ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھیں جنہیں مئی کے شروع میں اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے غزہ سے رفح کراسنگ کی بندش سے قبل علاج کے لیے مصر کے راستے نکالاگیا تھا۔
ان کی بیس سالہ آنٹی فرجلہ جن کے ساتھ وہ غزہ سے علاج کے لیے قطر منتقل ہوئی ہیں کہتی ہیں کہ مریم اب نفسیاتی طور پر پہلے سے بہتر ہیں۔
دونوں کو اب تک وہ گھر یاد ہے جہاں وہ اکٹھی رہتی تھیں ، اور جو دواسرائیلی مزائیلوں کے حملے میں تباہ ہوا تھا۔
دوحہ آنےکے بعد مریم نے دو ماہ زیادہ تر حماد جنرل اسپتال میں گزارے جہاں ان کی ٹانگ کو مکمل طور پر الگ کرنے کےلیے تین آپریشن ہوئے۔
دوحہ کا ثمامہ کمپلیکس
اب ثمامہ کمپلیکس میں ان کا نفسیاتی علاج ہو رہا ہے، دوحہ کا یہ کمپلیکس ابتدائی طور پر 2022 کے فٹ بال ورلڈ کپ کو دیکھنے کےلیے آنے والے پرستاروں کی رہائش کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ اب اس میں غزہ سے طبی علاج کے لیے آنے والے ایک ہزارافراد کو، جن میں سے لگ بھگ تین سو اپنے اعضا کھو چکے ہیں، انکے سر پرستوں کےساتھ ٹھہرایا گیا ہے ۔
کلچرل شاک
فرجلہ نے بتایا کہ جنگ سے تباہ حال غزہ کی ہولناکیوں کے بعد دولتمند خلیجی امارات میں زندگی کو ڈھالنا مریم کو کنفیوزنگ رہا ہے ۔ وہ رات کو مجھ سے بہت سے سوال پوچھتی ہے۔
خود فرجلہ کے لیے یہ تبدیلی عجیب سی رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں ہر چیز میسر ہے ۔ لیکن وہ سوال کرتی ہیں کہ غزہ دوسرے ملکوں کی طرح کیوں نہیں ہے۔ وہ مقبوضہ کیوں ہے ؟
گروپ تھیرپی کلینکس
حماد میڈیکل کارپوریشن کے اسپیشل ایجو کیشن ڈپارٹمنٹ کے سر براہ موسیٰ محمد ثمامہ کمپلیکس میں تین سے چھ سال کی عمر کے 190 بچوں کے لیے گروپ تھیرپی کلینکس چلاتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ ان سیشنز میں جن میں سوشل اسکلز اور آرٹ تھیرپی شامل ہے ، بحالی کے لیے اہم ہیں ۔
محمد نے وضاحت کی کہ تین ماہ قبل یہ بچے سکون سےنہیں بیٹھ سکتے تھے اوران پر تشدد کے دورے پڑتے تھے جس کے تحت ان میں سے کچھ دروازوں کو ٹھوکریں مارتے تھے اور اپنے ارد گرد کے بچوں کو، لوگوں کو مارتے پیٹتے تھے ۔
بحالی میں پیش رفت
محمد نے بتایا کہ ان سیشنز میں بہتری خاصی مشکل رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ اب بچے زیادہ تعاون کرنے لگے ہیں۔ اب ان کے جارحانہ اور سیشنز میں شرکت سےانکار کے رویے تبدیل ہو گئے ہیں اور اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ خود سے روزانہ ان سیشنز میں شرکت کریں۔
دس سالہ کریم الشاعیہ اپنی بائیں ٹانگ سےمحروم ہونے کے باوجود اپنی بائیسکل چلاتے ہیں۔ ان کی ٹانگ کو اس کے بعد گھتنے سے نیچے سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا تھا جب غزہ میں اپنے فیملی گارڈن میں کھیلتے ہوئے انہیں ایک بم کا تکڑا آکر لگا ۔
کریم نے بتایا۔ اس وقت سب کچھ اچھا جا رہا تھا۔ ہم گھر سے باہر فن کر رہے تھے جب انہوں نے ہمارے گھر کے قریب ایک ریسٹورنٹ پر بمباری کی اور بم کا ٹکڑا اڑکر وہاں پہنچ گیا ۔
شخصیت میں تبدیلی
کریم کی والدہ سبرینہ الشایہ نے بتایا کہ زخم نے کریم کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔ وہ بہت پریشان ہو گیا تھا اور اکثر خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیتا تھا۔ لیکن چار ماہ کے گروپ سیشن ا ور کاؤنسلنگ کے بعد کریم کا رویہ بہتر ہو رہا ہے ۔ بچوں کے ساتھ اس کا برتاؤ بہت مثبت ہے ۔
اپنے اپارٹمنٹ سے جسے کریم اب اپنا گھر کہتا ہے ،گفتگو کرتے ہوئے کریم نے کہا کہ اسے غزہ میں پیچھے رہ جانےوالے اپنے دوست یاد آتے ہیں جن میں سے ایک حال ہی میں ہلاک ہو ا تھا۔
کریم نے بتایا کہ ، یہاں ہم آرام سے ہیں ، وہ ہماری دیکھ بھال کرتے ہیں اور ہمیں کھیلنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ اگر جنگ رک جائے تو وہ اب بھی غزہ واپس جانا چاہتا ہے
۔
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے ، نے جون کے آخر میں بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی کے بعد، جون کے اختتام تک غزہ کے کل 2 ہزار بچے اپنی ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہو چکے تھے یعنی ہر روز لگ بھگ دس بچے ۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل کی جوابی مہم میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 39 ہزار 623 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔
حماس کے حملے میں بارہ سو کے لگ ھگ لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر سویلین تھے۔
اس اسٹوری کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم