رسائی کے لنکس

بھارت میں اوقاف کا متنازع بل؛ اپوزیشن اور مسلم تنظیمیں کیوں مخالفت کر رہی ہیں؟


  • اوقاف سے متعلق 1923 کا قانون منسوخ کر کے نیا قانون متعارف کرایا جا رہا ہے
  • وقف جائیدادوں کا فیصلہ اور تعین سروے کے بعد کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کرے گا، مجوزہ ترمیم
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو وقف بورڈز کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر حکومت کے پاس چلا جائے گا
  • حکومت نے بل کے دفاع میں کہا ہے کہ اس کا مقصد اوقاف کی جائیدادوں پر مافیہ کے قبضے کا خاتمہ ہے
  • مسلم تنظیموں کا کہنا ہے حکومت نے ایسا راستہ کھول دیا ہے جس کے بعد مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔
  • اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اوقاف سے متعلق نئے قوانین سے مذہبی منافرت اور مختلف برادریوں کے درمیان تفریق پیدا ہو گی۔

نئی دہلی_ بھارت میں اوقاف سے متعلق پارلیمنٹ میں ایسا متنازع بل پیش کیا گیا ہے جسے اپوزیشن اور مسلمان تنظیمیں مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دے کر اس کی مخالفت کر رہی ہے۔

مرکزی وزیرِ قانون کرن رجیجو نے جمعرات کو جس وقت لوک سبھا میں متنازع ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ پیش کیا تو ایوان میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ حزب اختلاف نے شدید احتجاج کرتے ہوئے بل کو ظالمانہ، غیر آئینی اور مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

وزیرِ اعظم مودی کی حکومت نے وقف ایکٹ 1923 کو منسوخ کر دیا ہے۔ ’وقف ایکٹ 1955‘ کا نام بدل کر ’یونیفائڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفی شئنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ‘ کر دیا گیا ہے۔

حکومت کے مطابق اس کا مقصد ایک سینٹرل پورٹل کے ذریعے اوقاف کی جائیدادوں کے رجسٹریشن سے متعلق قواعد بنانا ہے۔

وقف ایکٹ میں 44 ترامیم کی گئی ہیں۔ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں دو خواتین کے تقرر، جو مسلم یا غیر مسلم ہو سکتی ہیں اور اوقاف سے ہونے والی آمدن کو بیوہ، مطلقہ اور یتیموں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی تجاویز رکھی گئی ہے۔

ترمیم کے مطابق وہی شخص اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر کاربند ہو اور اس جائیداد کا مالک ہو۔ وقف جائیدادوں کا فیصلہ اور تعین سروے کے بعد کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کرے گا۔ وقف بورڈوں میں شیعہ، سنی، بوہرہ، آغاخانی اور پسماندہ مسلم برادری کی نمائندگی ہو گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وقف قوانین میں تبدیلی کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو وقف بورڈز کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر حکومت کے پاس چلا جائے گا۔

بل پر بحث کے دوران کانگریس کے رکن کے سی وینوگوپال نے بل کو ظالمانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ آئین پر حملہ ہے۔ بل سے مذہبی منافرت اور مختلف برادریوں کے درمیان تفریق پیدا ہو گی۔

اکھلیش یادو، اسد الدین اویسی اور سپریہ سولے سمیت متعدد اپوزیشن ارکان نے بھی بل کی مخالفت کی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی قرار دیا اور حکومت پر اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔

وزیرِ قانون کرن رجیجو نے بل کے دفاع میں کہا کہ یہ کسی بھی مذہبی تنظیم کی آزادی میں مداخلت نہیں کرتا۔ یہ بھول جائیے کہ کوئی کسی کا حق چھین لے گا۔ یہ بل اس لیے لایا گیا ہے تاکہ حقوق سے محروم لوگوں کو حقوق دیے جائیں۔

انھو ں نے یہ بھی کہا کہ وقف بورڈز پر مافیاؤں کا قبضہ ہے۔ حکومت کے پاس ایسی متعدد شکایتیں ہیں کہ وقف کی زمینوں پر ناجائز قبضے کر لیے گئے ہیں۔

حکومت کی حلیف جماعت جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی یو) کے رکن راجیو رنجن نے کہا کہ یہ بل وقف بورڈز کے انتظام میں شفافیت لانے کے لیے لایا گیا ہے۔ حکومت کی حلیف جماعتوں جنتا دل یو اور تیلگو دیسم نے بل کی حمایت کی۔

مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے بل کی مخالفت

بھارتی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ نے کہا کہ جو ترامیم کی گئی ہیں ان سے وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل جائے گی اور حکومت کے لیے ان پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ لہٰذا اسے کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔

بورڈ کے ترجمان ڈاکر سید قاسم رسول الیاس کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیے گئے وہ عطیات ہیں جنھیں مذہبی و خیراتی کاموں کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ حکومت نے وقف ایکٹ ان جائیدادوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بنایا تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وقف ایکٹ اور وقف جائیدادوں کو دستور اور شریعت اپلی کیشن ایکٹ 1937 کا بھی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے حکومت اس میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کر سکتی جس سے ان جائیدادوں کی حیثیت بدل جائے۔

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو ترامیم کی گئی ہیں وہ اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔ حکومت نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم ارکان کے تقرر کا راستہ کھول دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائیدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔

مشاورت کے صدر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ بل کی منظوری سے کلکٹر راج وجود میں آئے گا۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی جائیداد وقف ہے اور کون سی نہیں ہے۔ وقف ٹریبونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے۔ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہو گا۔

ان کے مطابق اس بل کے ذریعے مسلم علما کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تشریح اور فیصلے کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلموں کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پامالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔

جماعتِ اسلامی ہند کا کہنا ہے کہ ان ترامیم سے وقف بورڈوں کی خود مختاری ختم ہو جائے گی اور اوقاف کی جائدادوں کا مقصد متاثر ہو جائے گا۔

جماعت اسلامی کے امیر سید سعادت اللہ حسینی کے مطابق بل میں کلکٹرز کو املاک کے تعین کا اختیار دے دیا گیا۔ اس کے مطابق اس سے وقف جائیدادوں کے تنازع کو نمٹانے میں قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوں گی۔

قانون کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایم آر شمشاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وقف جائیدادیں سرکاری ملکیت ہیں۔ جب کہ وہ مذہبی و خیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے لیے مسلمانوں کی جانب سے وقف کی گئی ہیں۔

ان کے خیال میں جب حکومت کسی چیز کو اپنا سمجھ لیتی ہے تو وہ اس میں مداخلت کرتی ہے۔ چوں کہ یہ جائیدادیں خیراتی کاموں کے لیے دی گئی ہیں اس لیے ان کے انتظام میں حکومت کا ریگولیشن کم سے کم ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق اوقاف مشترکہ طور پر مسلم برادری کی املاک ہیں اس لیے ان کو مسلمانوں کو ہی ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ ہر وقف جائیداد کے ساتھ اس کے مقاصد ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان مقاصد پر ضرب نہیں پڑنی چاہیے۔

ان کے خیال میں اگر اوقاف کے انتظام میں حکومت کی مداخلت ہو جائے گی تو وہ ان کا استعمال پتہ نہیں کیسے کرے گی۔ کلکٹر اور تحصیل دار ان املاک کے بارے میں پتہ نہیں کیا رپورٹ بنائیں گے۔ اس سے پورا نظام متاثر ہو جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پارلیمان سے جو بھی کوئی قانون بنتا ہے وہ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس بل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ لیکن عدالت میں کیا صورت حال ہوتی ہے ابھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

ان کے مطابق ترامیم میں کچھ ایسی دفعات ہیں جو بنیادی حقوق کی بری طرح پامالی کرتی ہیں اس لیے عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق وقف جائیداد ان منقول و غیر منقولہ جائیدادوں کو کہا جاتا ہے جو خدا کے نام پر مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے جیسے کہ قبرستان، عیدگاہ اور دیگر ایسے ہی کاموں کے لیے کسی کی جانب سے وقف کی گئی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ وقف جائیدادیں چوں کہ خدا کے نام پر وقف کی جاتی ہیں اس لیے ان کا استعمال واقف کے خلاف کسی دوسری مد میں نہیں کیا جا سکتا۔ ان جائیدادوں کو کسی دوسرے کے نام منتقل بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یاد رہے کہ ملک میں 32 ریاستوں میں وقف بورڈز قائم ہیں جو اوقاف کی جائیدادوں کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ حکومت نے 1964 میں ’سینٹرل وقف کونسل‘ نام سے ایک مرکزی ادارہ قائم کیا تھا جس کا کام ریاستی وقف بورڈوں کی نگرانی اور ان کو مشورے دینا ہے۔

حکومت نے 1995 میں نیا وقف ایکٹ بنایا اور 2013 میں اس میں ترمیم کر کے ریاستی وقف بورڈوں کو مزید اختیارات دیے گئے۔ وقف جائیدادوں سے متعلق کسی بھی تنازع میں آخری فیصلہ ’وقف ٹربیونل‘ کا ہوتا ہے۔ لیکن نئی ترامیم میں ٹریبونل کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق ملک میں املاک کے اعتبار سے وزارتِ ریلویز اور دفاع کے بعد وقف ادارہ تیسرا بڑا ادارہ ہے۔ اس کے پاس 8.7 لاکھ جائیدادیں ہیں جو پورے ملک میں 9.4 لاکھ ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی مجموعی قیمت ایک ہزار ارب بھارتی روپے سے زائد ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG