اسلام آباد _ بنگلہ دیش میں ہنگاموں اور شیخ حسینہ کے حکومت کے خاتمے کے بعد ماہرِ معاشیات ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد بنگلہ دیش میں اُن کی واپسی نے مجھے 17 برس پہلے ہونے والی ملاقات کی یاد دلا دی۔
کراچی میں مارچ کے مہینے میں گرمی شروع ہو جاتی ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے وسیع و کشادہ ٹھنڈے آڈیٹوریم میں ہونے والے سیمینار کا موضوع 'مائیکرو فنانس' تھا جو حاضرین کے لیے خاصا خشک تھا۔ سیشن میں چند درجن ہی افراد موجود تھے اور حاضرین میں کچھ رپورٹر بھی تھے۔
سن 2007 میں منعقد ہونے والے سیمینار کے موضوع پر بات کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے گرامین بینک کے بانی ڈاکٹر محمد یونس تھے۔ جنہیں چند ماہ قبل ہی نوبیل انعام ملا تھا۔
سفید پاجامے کے ساتھ کاٹن کا کرتا اور واسکٹ میں ملبوس ڈاکٹر یونس اپنے دھیمے لہجے میں چھوٹے قرضوں کی اہمیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ اپنے لیکچر کے دوران انہوں نے اپنا وہ مشہور جملہ بھی دہرایا کہ 'آسان فنانس تک رسائی ہر شخص کا بنیادی انسانی حق ہے۔'
ویسے تو مائیکرو فنانس یا چھوٹے قرضوں کو پاکستانی معیشت میں اہم قرار دیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں کچھ خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔
شاید اُس وقت کھاتے پیتے ملک کے لیے مائیکرو فنانس یا چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے دینا ایک غیر اہم موضوع تھا کیوں کہ اُن دنوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے سبب پاکستان میں ڈالر کی ریل پیل تھی اور بینکوں میں شرح سود کم ہونے کے سبب آسان قرض اور کریڈٹ کارڈ کی دلکش پیشکش نے عوام کی زندگیاں بھی آسودہ بنا دیں تھیں۔
پاکستانی روپیہ بھی اپنی کچھ قدر رکھتا تھا، صنعتیں بھی چل رہی تھیں اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کی خبریں ابھی زبان زدِ عام نہیں تھیں۔
میری ڈگری اکنامکس میں تھی اور یونیورسٹی کے آخری چند ماہ میں بنگلہ دیش ماڈل کے بارے میں کچھ جاننے اور پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے جب اسٹیٹ بینک کے سیمینار کے دعوت نامے میں ڈاکٹر یونس کا نام پڑھا تو وہاں جانے کے لیے اپنی ایڈیٹر سے اجازت مانگی۔
عموماً سیمینار میں بڑی خبریں کم ہی نکلتی ہیں اس لیے جونیئر رپورٹر وہاں کوریج کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ مجھے اس اسائمنٹ پر اسٹیٹ بینک بھیج دیا گیا۔
سیمینار میں ڈاکٹر یونس نے پنتالیس منٹ کے لیکچر میں اپنے گرامین بینک کے ماڈل پر بات کی جس کی 98 فی صد ملکیت خواتین کے پاس ہے اور اس میں قرضوں کی ادائیگی کی شرح بھی تقریباً 99 فی صد ہے۔
ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک کے ماڈل نے مجھے متاثر کیا یعنی ایک ایسا ادارہ ہے جسے علاقے کے لوگ مل کر چلاتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگیاں بدلتے ہیں۔
ڈاکٹر یونس نے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پر بھی بات کی لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو معاشی شرح نمو کو مستحکم کرنے کے لیے طویل المدتی پلاننگ کرنا ہو گی۔
انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام اس بات پر کیا کہ چھوٹے اور آسان قرضوں کی فراہمی سے غربت کم کی جا سکتی ہے اور ہیومن ڈویلپمنٹ پر زیادہ وسائل خرچ کیے جائیں۔
ڈاکٹر یونس مشکل اور ثقیل اصلاحات استعمال کرتے ہوئے لیکچر دے رہے تھے اور میں نوٹ کرتی جا رہی تھی۔ سوال و جواب کا سیشن ہوا تو میرے پاس کئی سوال تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ پاکستان میں چھوٹے قرضوں پر شرح سود زیادہ ہوتی ہے اور گھریلو صنعتوں کے لیے قرضہ ملنا بہت مشکل ہے لیکن آپ کا ماڈل کیسے کامیاب ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے بہت تحمل اور اپنے دھیمی انداز میں جواب دیا اور کہا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف پختہ عزم، محنت اور اچھی حکمتِ عملی ضروری ہے۔ اس کام کا مقصد منافع کمانے کے بجائے صرف اور صرف لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے کیوں کہ یہ ایک عام کاروبار نہیں بلکہ سوشل بزنس یا سماجی کاروبار ہے۔
ڈاکٹر یونس نے گرامین بینک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پیسے کمانے سے خوشی ملتی ہے اور لوگوں کی مدد کر کے بھی خوشی ملتی ہے۔ لیکن ان کے ماڈل میں پیسہ اور خوشی دونوں ملتی ہیں۔
سیمینار کے بعد انہوں نے کیمرے پر بھی میڈیا کے سوالات کا جواب دیا اور بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ عوام کو غربت سے نکالنا ہے کیوں کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت عوام ہے۔
میں نے پوچھا کیا اُن کا بینک پاکستان میں اپنی برانچ کھولے گا؟ جس پر ڈاکٹر یونس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ فی الحال ایسا کوئی منصوبہ نہیں لیکن مستقبل میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تلخ یادوں نے دونوں ملکوں کو کبھی قریب آنے نہیں دیا حالاں کہ اس وقت گرامین بینک امریکہ سمیت بہت سے ملکوں میں کام کر رہا ہے۔
اُن کا ایک اور جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ "ہماری آنے والی نسلیں غربت کو میوزیم میں دیکھیں گی۔"
سنہ 2007 کے بعد غالباً ڈاکٹر یونس کبھی پاکستان نہیں آئے اور پھر 2009 میں شیخ حسینہ کی جماعت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد گرامین بینک میں حکومتی مداخلت کی خبریں سامنے آئیں۔
وزیراعظم شیخ حسینہ نے ڈاکٹر یونس کو گرامین بینک سے علیحدگی پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسے میں وہ اپنے ہی بینک کے ماڈل 'بلڈ، آپریٹ اینڈ ٹرانسفر یعنی، بناؤ، چلاؤ اور منتقل کر دو' کی مانند گرامین بینک کو چھوڑ گئے۔
لیکن وہ عوام جسے ڈاکٹر یونس ہمیشہ اہمیت دیتے تھے اُنہی نے ڈاکٹر صاحب کو بنگلہ دیش کا سربراہ بنا دیا ہے۔
فورم