رسائی کے لنکس

گوادر دھرنا ختم؛ مظاہرین کو کیا یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں؟


  • بلوچستان حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنا ختم کر دیا ہے۔
  • پرتشدد واقعات کے بعد گوادر، پنجگور، مستونگ، نوشکی اور کوئٹہ میں تنظیم کی جانب سے احتجاجی دھرنے شروع کر دیے گئے۔
  • حکومت کی جانب سے گوادر اور مکران میں قومی شاہراہیں کھولنے اور انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ منظور کیا گیا ہے۔
  • گوادر میں دھرنا ختم ہونے کے بعد بی وائی سی کا قافلہ واپس تربت روانہ ہو گیا ہے۔

'بلوچ یکجہتی کمیٹی' نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد گوادر میں 11 روز سے جاری دھرنا ختم کر دیا ہے۔

بلوچستان میں محکمہ داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور "حکومتِ بلوچستان" کے درمیان مذاکرات کے دوان طے پانے والے معاہدے کو "امن معاہدے" کا نام دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچ راج مچی اجتماع کے دوران پر تشدد واقعات میں بی وائی سی کے چار کارکنوں کے علاوہ پاکستان فوج کا ایک اہل کار بھی جان کی بازی ہار گیا تھا۔

افسر کے مطابق مذاکرات میں حکومتی سربراہی صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی نے کی جب کہ کمشنر مکران ڈویثرن داؤد خلجی سمیت دیگر اعلٰی حکام بھی مذاکراتی کمیٹی میں شامل تھے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف "بلوچ یکجہتی کمیٹی" نے گزشتہ ماہ پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں "بلوچ راج مچی" کے نام سے ایک عوامی اجتماع کا اعلان کیا تھا۔

تاہم پرتشدد واقعات کے بعد گوادر، پنجگور، مستونگ، نوشکی اور کوئٹہ میں تنظیم کی جانب سے احتجاجی دھرنے شروع کر دیے گئے۔

صوبائی حکومت کے نمائندوں کی جانب سے اس جلسے کی ٹائمنگ اور مقام پر سوال اٹھائے گئے تھے اور بی وائی سی کو یہ پیش کش دی گئی تھی کہ وہ جلسے کے لیے گوادر کے بجائے کسی اور مقام کا انتخاب کریں۔

مظاہرین کو کیا یقین دہانیاں کرائی گئیں؟

جمعرات کی شب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے مطالبات منظور ہونے پر دھرنا ختم کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے "بلوچ راج مچی" کے تمام گرفتار اور جبری گمشدہ شرکا کو فی الفور رہا کرنے کے مطالبے کو مان لیا ہے۔

مذاکرات میں شرکا کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لینے راج مچی قافلے میں شامل ہلاک ہونے والے کارکنوں کے قتل کا مقدمات ریاستی اداروں کے خلاف درج کرنے، پر تشدد واقعات کے دوران عام عوام کو پہنچنے والے مالی نقصانات کا ازالہ کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

بی وائی سی کے مطابق مذاکرات میں یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ اس سلسلے میں محکمہ داخلہ بلوچستان ایک نوٹی فکیشن جاری کرے گا۔

معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومت کسی بھی شہری اور بی وائی سی کے کارکنوں کو ہراساں کرنے اور غیر قانونی مقدمات بنانے سے اجتناب کرے گی۔

حکومت کی جانب سے گوادر اور مکران میں قومی شاہراہیں کھولنے اور انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ منظور کیا گیا ہے۔

اس معاہدے کے بارے میں وائس آف امریکہ نے بی وائی سی کے قائدین ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

تاہم کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک رہنما بیبرگ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مرکزی قائدین کی جانب سے حتمی فیصلے پر جلد ہی کوئٹہ، نوشکی اور پنجگور میں بھی دھرنے ختم ہوں گے۔

بیبرگ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے بعد مطالبات پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے بی وائی سی کے 278 افراد میں سے 255 کو رہا کردیا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے بھی تصدیق کی ہے کہ گوادر میں بی وائی سی کا دھرنا ختم ہو گیا ہے اور اب شہر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوان ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے پہلے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہر اس مطالبے کو ماننے کو تیار ہیں جو آئین اور قانون کے مطابق ہو۔

گوادر میں دھرنا ختم ہونے کے بعد بی وائی سی کا قافلہ واپس تربت روانہ ہوگیا ہے۔

اس سلسلے میں تنظیم کی جانب سے ایک شیڈول جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قافلہ تربت میں قیام کرے گا جہاں ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ کارکنوں سے خطاب کریں گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG