رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: عبوری انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس کا مذہب کی بنیاد پر تفریق سے گریز پر زور


محمد یونس عبوری انتظامیہ کی سربراہی کے لیے فرانس سے واپس بنگلہ دیش آئے ہیں۔
محمد یونس عبوری انتظامیہ کی سربراہی کے لیے فرانس سے واپس بنگلہ دیش آئے ہیں۔

  • ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کی سربراہ کر رہے ہیں۔
  • محمد یونس کے مطابق یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نئے بنگلہ دیش کی تعمیر کریں۔
  • شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہندو اقلیت کے خلاف متعدد حملوں کی وجہ سے خوف میں اضافہ ہوا ہے۔

ویب ڈیسک — بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے طالب علم کی والدہ سے تعزیت کرتے ہوئے مذہبی اتحاد کی اپیل کی ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق محمد یونس کا ہفتے کو کہنا تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک نئے بنگلہ دیش کی تعمیر کریں۔

نوبل انعام یافتہ 84 سالہ محمد یونس یورپ سے واپس آئے ہیں تاکہ وہ بنگلہ دیش میں ایک عارضی انتظامیہ کی قیادت کر سکیں جسے بد نظمی کے خاتمے اور جمہوری اصلاحات کو نافذ کرنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک کی ہندو اقلیت کے خلاف متعدد حملوں کی وجہ سے اندرون ملک خوف میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

محمد یونس نے شمالی شہر رنگ پور میں گزشتہ ماہ کی بد امنی کے دوران ہلاک ہونے والے پہلے طالب علم ابو سعید کی یاد تازہ کرتے ہوئے پر سکون رہنے کی اپیل کی ہے۔

اس موقع پر محمد یونس کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابو سعید اب ہر گھر میں موجود ہے اور جس طرح وہ کھڑے تھے، ہمیں بھی وہی کرنا ہے۔

 بنگلہ دیش میں سیاسی بحران، اب کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:58 0:00

ان کے بقول ابو سعید کے بنگلہ دیش میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

خیال رہے کہ 25 سالہ ابو سعید کو گزشتہ ماہ 26 جولائی کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف ہونے والے طالب علموں کے مظاہروں پر کریک ڈاؤن کے دوران پولیس نے قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

محمد یونس کی آمد کے موقع پر ابو سعید کی والدہ ان سے لپٹ گئیں جو ملک کا انتظام سنبھالنے والی کابینہ کے اراکین کے ہمراہ ان سے ملنے آئے تھے۔

شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ کیسے ہوا؟

بنگلہ دیشی طلبہ کا احتجاج جون 2024 میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولادوں کے لیے مختص تھا۔

حکومت کے ناقدین کا الزام تھا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نافذ کوٹے کو اپنے سیاسی حامیوں اور کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے کوٹے کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا آغاز کیا۔

جولائی کے وسط میں جب تحریک نے شدت اختیار کی تو سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرتے ہوئے شورش زدہ شہروں میں کرفیو لگا دیا۔

پرتشدد مظاہروں کے دوران لگ بھگ تین سو اموات ہوئیں۔ اگرچہ 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ احتجاجی لہر برقرار رہی اور 5 اگست کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو عہدے سے استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت منتقل ہونا پڑا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG