|
امریکہ نے جمعے کے روز کہا کہ مذاکرات کے تیسرے مرحلے میں پیش رفت ہوئی ہے اگرچہ مصری سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی غزہ مذاکرات میں حائل ایک بڑی رکاوٹ کے طورپر سامنے آئی تھی ۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہےکہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس قاہرہ میں منعقدہ ان مذاکرات میں حصہ لینے والے امریکی حکام میں شامل تھے، جن میں اسرائیل کی جاسوسی کی ایجنسی اور سیکیورٹی سروس کے سربراہان بھی شامل تھے۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ " پیش رفت ہوئی ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں فریق اکٹھے ہوں اور عمل درآمد کےلئے کا م کریں۔"
انہوں نے کہا کہ جمعرات کی شام کو شروع ہونے والے ابتدائی مذاکرات "تعمیری نوعیت کے تھے"، انہوں نے مزید کہا کہ یہ اطلاعات غلط تھیں کہ سفارت کاری ختم ہونے والی تھی۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نمائندے، قاہرہ مذاکرات میں حصہ نہیں لے رہے تھے۔
حماس کے ایک عہدےدار، حسام بدران نے جمعے کو اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ اصرار کہ ان کی فوجیں غزہ-مصر کی سرحد کے ساتھ ایک زمینی پٹی پر برقرار رہیں، جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے، " کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے سے ان کے انکار" کی عکاسی کرتا ہے ۔
بدران نے جمعے کو اس بات کا اعادہ کیا کہ حماس نے "بائیڈن کے منصوبے کو اس حالت میں قبول کیا ہے جیسا کہ ابتدا میں بیان کیا گیا تھا اور کہا کہ واشنگٹن کو نیتن یاہو پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حماس " فلاڈیلفی سمیت ،قابض فورسزکے انخلاء سے کم کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا "
نیتن یاہو کے دفتر نے، جن کا دائیں بازو کا سخت گیر اتحاد جنگ بندی کے مخالف اراکین کی حمایت پر انحصار کرتا ہے، میڈیا کی ان رپورٹس کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیا ہے کہ "نیتن یاہو اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور سے دستبردار ہو جائے گا۔ "
نیتن یاہو حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روکنے کے لیے مصری سرحد کے ساتھ پٹی کا کنٹرول ضروری سمجھتے ہیں۔
مصر نے اپنے ساتھی ثالثوں، قطر اور امریکہ کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان 10 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کے لئے مہینوں کوشش کی ہے۔
'اب وقت آگیا ہے'
غزہ میں جنگ بندی تک پہنچنے اور کسی وسیع تر جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی کوششیں اس کے بعد سے تیز ہو گئی تھیں جب گزشتہ ماہ ایران کے حمایت یافتہ دو سینئر عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد ، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، تہران اور اس کے اتحادیوں نے انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں دیں ۔
غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے لبنان کی ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک اور اسرائیل فورسز کے درمیان سرحد پار سے روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔
شکاگو میں اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے، امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے کہا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ یرغمالوں کا کوئی معاہدہ اور جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے پا جائے"
جنگ بندی مذاکرات کا لائحہ عمل
جنگ بندی مزاکرات اس لائحہ عمل کی بنیاد پر ہہوتے رہے ہیں جس کا خاکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے مئی کے آخر میں پیش کیا تھا اور جسے انہوں نے اسرائیلی تجویز قرار دیا تھا۔
تین مرحلوں پر مشتمل اس منصوبے میں ابتدائی طور پر اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے یرغمالوں کا تبادلہ ہوگا جس دوران جیسا کہ بائیڈن نے کہا کہ چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی " بھر پوراور مکمل جنگ بندی" ہو گی۔
اس منصوبے کے تحت اسرائیلی فورسز غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے واپس چلی جائیں گی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس ہفتے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا اور کہا کہ نیتن یاہو اختلافات دور کرنے اور کوئی معاہدہ طے کرنے سے متعلق امریکہ کی تجویز سےمتفق تھے ۔
کربی نے کہا کہ امریکہ کو مسلسل یقین ہے کہ نیتن یاہو نے اس تجویز کو قبول کیا ہےاور اس نے حماس سے دوبارہ اپیل کی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔
غزہ میں لڑائی میں شدت
غزہ میں لڑائی شدت پکڑ گئی ہے، جہاں عینی شاہدین نے علاقے کے شمال میں لڑائی، مرکز میں شدید گولہ باری اور رفح شہر کے قریب جنوب میں ٹینک میں آگ لگنے کی اطلاع دی۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران فوجیوں نے خان یونس اور دیر البلاح کے اطراف میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا: اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اس ہفتے دیر البلاح اور جنوبی شہر خان یونس سے ہزاروں شہری اسرائیلی انخلاء کے احکامات کے بعد دوبارہ نقل مکانی کر رہے ہیں۔
فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر، محناد ہادی نے جمعرات کو کہا، "شہری تھک چکے ہیں اور خوفزدہ ہیں، ایک تباہ شدہ جگہ سے دوسری کی طرف بھاگ رہے ہیں، جس کا کوئی انجام نظر نہیں آرہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "یہ جاری نہیں رہ سکتا۔"
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ نے غزہ کی تقریباً تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے، اکثر کئی بار، نتیجتاً وہ پناہ گاہ، صاف پانی اور دوسری ضروری اشیاء سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔
یرغمالوں کے حامیوں کے مظاہرے
نیتن یاہو کو یرغمالوں کے حامیوں کی طرف سے مسلسل مظاہروں کا سامنا ہے جو یرغمالوں کو وطن واپس لانے کے لیے ڈیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایلا بن امی نے، جن کے والد غزہ میں قید افراد میں شامل ہیں، جمعے کو نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ " اس بھاری اور مشکل احساس کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئیں کہ یہ (جنگ بندی معاہدہ) جلد نہیں ہونے والا ہے"۔
انہوں نے یرغمالوں کی رہائی کی مہم سے متعلق گروپ، ہوسٹجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا۔"میں اپنے والد کی زندگی ، وہاں موجود لڑکیوں اور ہر کسی کے لیے فکر مند ہوں،"
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم