|
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا ہےکہ قطر کے دارالحکومت، دوحہ میں غزہ جنگ بندی کے تازہ ترین مذاکرات کو اعلیٰ امریکی حکام نے " پر امید شروعات" قرار دیا ہے لیکن فوری طور پر کوئی معاہدہ طے پانے کا امکان دکھائی نہیں دیتا ۔
قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’آج ایک امید افزا شروعات ہوئی ہے۔‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ ،’’ معاہدے کی پیچیدگی کے پیش نظر ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں آج کوئی معاہدہ طے پاجائے گا "
کربی نے کہا، "باقی رکاوٹیں دور کی جا سکتی ہیں، اور ہمیں اس پراسیس کو کسی انجام تک لانا چاہیے ۔"۔ انہوں نے کہا کہ ، "ہمیں یرغمالوں کی رہائی، غزہ میں فلسطینی شہریوں کے لیے امداد، اسرائیل کی سلامتی اور خطے میں کشیدگی میں کمی دیکھنے کی ضرورت ہے، اور ہمیں ان چیزوں کوجلد از جلد ہوتا دیکھنے کی ضرورت ہے۔"
توقع ہے کہ یہ مذاکرات جمعے تک جاری رہیں گے۔ شرکا میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز بھی شامل ہیں۔
کربی نے تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ مذاکرات اب خاص طور پر عمل درآمد سے متعلق ہیں کیونکہ لائحہ عمل کو بڑی حد تک قبول کر لیا گیا ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر کے مذاکرات کاروں نے اسرائیل کے ایک وفد سے ملاقات کی۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے بتایا کہ حماس نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ مذاکرات میں حصہ نہیں لے گا، لیکن اس کے نمائندے بعد میں ثالثوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
جنگ بندی کےمعاہدے کی اہمیت ؟
غزہ اور مغربی کنارے میں جاری لڑائی کے علاوہ اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ کر رہے ہیں ۔ بحیرہ احمر میں تجارتی بحری جہازوں پر یمن میں مقیم حوثیوں کے حملے جاری ہیں ، اور ایران نے گذشتہ ماہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے اس ہلاکت کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ، تاہم اس پر بڑے پیمانے پر ہنیہ کی موت کا الزام عائد کیا گیاہے۔
اس کے علاوہ ،حال ہی میں بیروت میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک فوجی کمانڈر ہلا ک ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ، ایران کے تین سینئر عہدہ داروں نے کہا ہے کہ انتقامی کارروائی کو روکنے کا واحد طریقہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہی ہوگا۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کےدہشت گرد حملے میں اسرائیل کے مطابق 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 250 افراد کو یرغمال بنانایا گیا تھا۔
اس کے بعدفلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 40,000 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
100 سے زیادہ یرغمال ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کی اکثریت جنگجو ؤں پر مشتمل تھی۔
اس رپورٹ کا موا د رائٹرز، اے پی اور اے ایف پی سےلیا گیا ہے
فورم