رسائی کے لنکس

پاکستان بھارت تجارت کی بحالی جرات مندانہ سیاسی اقدام کا معاملہ ہے، ماہرین


واہگہ بارڈر پر یہ تقریب روزانہ ہوتی ہے جسے بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس اور پاکستان رینجرز مشترکہ طور پر 1959ء سے کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
واہگہ بارڈر پر یہ تقریب روزانہ ہوتی ہے جسے بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس اور پاکستان رینجرز مشترکہ طور پر 1959ء سے کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
  • ایک حالیہ تھنک ٹینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کے پاس دو طرفہ تجارت کو بحال کر کے تعلقات میں بہتری لانے کا موقع ہے۔
  • ' تجارت اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہیے۔'تاجر
  • ' دونوں حکومتوں کے پاس عوامی مینڈیٹ چھوٹا یا کم ہوتا ہوا ہے، اس لیے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے جیسے جرات مندانہ اقدامات کی حمایت کرنے کے لیے زیادہ سیاسی جگہ نہیں ہے۔'تجزیہ کار
  • 'نئی دہلی کو پاکستان سے تجارت کرنا کوئی پرکشش معاملہ نہیں لگتا۔'تجزیہ کار
  • 'نئی دہلی کا ایس سی او اجلاس میں شرکت پر موقف اس بات کو ظاہر کرے گا کہ پاکستان اور بھارت مستقبل قریب میں دو طرفہ تجارت کو بحال کریں گے یا نہیں۔' تجزیہ کار

اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس اور اس میں بھارت کی شرکت یا عدم شرکت کے امکانات نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان سرد مہر تعلقات کو نمایاں کردیا ہے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق بھارت کے وزیر تجارت 12 ستمبر کو ہونے والے وزرائے تجارت کے اجلاس میں آن لائن شرکت کریں گے جبکہ نئی دہلی نے ابھی تک وزیر اعظم نریندر مودی کی اکتوبر کے وسط میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رہنماوں کے اجلاس میں شرکت کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایس سی او میں دوطرفہ تعلقات یا مسائل پر بات نہیں ہوتی لیکن بھارت کی اس فورم پر اسلام آباد میں موجود گی ایک موقع ہو سکتا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی رہنما اپنے روابط بحال کریں۔

واشنگٹن ڈی سی میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تھنک ٹینک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں انتخابات کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں کے پاس دو طرفہ تجارت کو بحال کر کے تعلقات میں بہتری لانے کا موقع ہے۔

میرا ووٹ، میرا مستقبل | نوجوان بھارت سے کیسے تعلقات چاہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:33:01 0:00

جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملکوں میں تعلقات سال 2019 سے تنزلی کا شکار ہیں جب کئی بڑے واقعات نے براہ راست دو طرفہ تجارت کو منجمد کر دیا اور سفارتی تعلقات میں زوال کا باعث بنے۔

اس سال فروری میں پاکستانی عسکریت پسند تنظیم جیش محمد نے جموں کشمیر کے علاقے پلواما میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 40 بھارتی نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو ئے تھے جس کے بعد بھارت نے پاکستان کو دیے گئے موسٹ فیورٹ نیشن یعنی تجارت کے لیے پسندیدہ ملک قرار دینے کے فیصلہ کو واپس لے لیا اور پاکستان سے برآمدات پر دو سو فیصد ڈیوٹی عائد کردی۔

پلواما واقعہ کے بعد بھارت اور پاکستان کے جنگی جہازوں میں تصادم بھی ہوا۔ اسی سال پانچ اگست کو نئی دہلی نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی ریاست کے طور پر مخصوص آئینی حیثیت ختم کر دی۔ پاکستان نے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہارکیا۔

پاکستان اور بھارت میں دیر پا امن کی جانب تجارت کی راہ کے موضوع پر لکھی گئی محقق ڈاکٹر سنجے کتھوریا کی"یونائیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس" کی رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے بعد تین سال قبل 2021 میں عمل میں آنے والی جنگ بندی برقرار ہے ہر چند کہ دونوں اطراف سے تجارت اور عوامی رابطے بہت کم ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر سنجے کتھوریا لکھتے ہیں کہ نئی حکومتوں کے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے پاس موقع ہے کہ وہ براہ راست تجارت کے ذریعہ امن کے امکانات کو مضبوط کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ تجارت کی بحالی سے نہ صرف دونوں ملکوں میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے بلکہ سفارت کاری کو کام کرنے کا موقع بھی ملے گا جس کےبعد اسلام آباد اور نئی دہلی مشکل مسائل کے حل کی جانب پیش رفت کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان نے اسلام آباد میں اکتوبر میں منعقد ہونے والے شنگھائی کوآپریشن آرگینائزیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو شرکت کی دعوت دی ہے۔

اس ضمن میں تاجر اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے نائب صدر ذکی اعجاز قریشی "پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تجارت اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہیے۔"

"ایک تاجر کی حیثیت سے میں پورے خطے کو دیکھتا ہوں جہاں پاکستان کے پڑوس میں بھارت اور چین واقع ہیں، پھر ہمارے ساتھ ایران اور افغانستان ہیں ۔ اگر ہم پاکستان سمیت ان سب ملکوں کی کی آبادی کو دیکھیں تو یہ دنیا کی نصف آبادی ہے اور کاروبار اور تجارت کے فروغ کی بہت بڑی منڈی ہے۔"

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ذکی قریشی نے کہا کہ جہاں تک پاکستان اور بھارت کی تجارت کا معاملہ ہے تو یہ دونوں ملکوں کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے ایک دو طرفہ انحصار ہے۔

" یہ تجارت دونوں کے لیے آسان اور سستی ہے، اور سب سے بڑھ کر عوام کے لیے مہنگائی پر قابو پانے کا ایک طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان ضرورت پڑنے پر بھارت سے پیاز اور دوسری سبزیاں درآمد کرتا ہے اور برآمد بھی کرتا ہے۔ اس وقت بھارت کو چاول کی ضرورت ہے اور اس نے فوڈ سکیوریٹی کے تحت چاول کی برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ پاکستان بھارت کو بڑی مقدار میں چاول مہیا کر سکتا ہے۔"قریشی نے کہا۔

لاہور میں مقیم زکی قریشی نے بتایا کہ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے واگہ کے راستے تجارت بلکل بند ہے اور اس وقت پاکستان کے لیے بھارت برآمدات بھیجنے کے لیے کئی ڈیوٹیز آڑے آتی ہیں۔

سال 2019 میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے سے قبل پاکستان کی بھارت کو درآمدات مالی سال 2018-19 میں نصف ارب ڈالر مالیت کی تھیں۔ اس سال بھارت نے پاکسان کو 2.06 ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ لیکن چار سالوں میں مالی سال 2023-24 کے دوران پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 3 ملین ڈالر رہ گئیں۔ اس وقت دونوں ملکوں میں غیر رسمی تجارت دبئی یا سنگاپور کی بندرگاہوں کے راستے ہوتی ہے۔

واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ اگر بھارت اور پاکستان تجارت بڑھاتے ہیں تو اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا اور یہ ان کے باہمی کمزور تعلقات کی بہتری کی طرف اعتماد سازی کا اہم اقدام ہوگا۔

Michael Kugelman
Michael Kugelman

تاہم، وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بارے میں خدشات ہیں کہ ان حالات میں تجارت کے شعبے میں پیش رفت ہوگی۔

مائیکل کوگل مین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کے پاکستان کی طرف سے تجارت بڑھانے کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن اس پر کوئی عملی اظہار نظر نہیں آیا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا،"اگر کبھی اس معاملے میں آگے بڑھنے کی توقع ہوتی تو یہ گزشتہ چند برسوں میں ہوتی جب عداوت ختم کرنے اور سرحد کو کھولنے کے لیے طاقتور ترغیبات موجود تھیں۔ مثلأ (کرونا کا) وبائی مرض، تباہ کن سیلاب، لڑکھڑاتی ہوئی معیشت۔ یہ وہ تمام مسائل ہیں جو زیادہ تجارتی تعاون سے کم ہو سکتے تھے، لیکن پھر بھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔"

آخر کار، ان کے مطابق، تجارت کا معاملہ سیاست سے وابستہ ہے۔

" دونوں حکومتوں کے پاس عوامی مینڈیٹ چھوٹا یا کم ہوتا ہے، اس لیے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے جیسے جرات مندانہ اقدامات کی حمایت کرنے کیلیے زیادہ سیاسی جگہ نہیں ہے۔"

وہ مزید کہتے ہیں، "درحقیقت، ہر فریق یہ سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں میں روابط کی حتی کہ تجارتی سطح پر بھی، سیاسی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ وہ اسے اٹھا نہیں سکتے۔"

واشنگٹن کے’نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈپالیسی‘ کے یوریشین سیکیورٹی کے سینیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملکوں کے درمیان تجارت سے انکےتعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ موجودہ تناظر میں بھارت پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کی بجائے اسے ایک’جیواسٹریٹیجک‘ مسئلہ کے طور پردیکھتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بھارتی ہم منصب مودی کو ایس سی او میں مدعو کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت تجارتی تعلقات بحال کرنا چاہے گی اور ہو سکتا ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی ایسا ہی چاہتی ہو۔

کامران بخاری
کامران بخاری

ڈاکٹر کامران بخاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا "بھارت اس وقت معاشی طور پر ایک مضبوط ملک ہے اور اسے سکیوریٹی چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو نئی دہلی کو پاکستان سے تجارت کرنا کوئی پرکشش معاملہ نہیں لگتا۔"

اپنے نکتے کو واضح کرتے ہوئے کامران بخاری نے کہا بھارت کی پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے میں عدم دلچسبی کی کئی وجوہات ہیں۔

"ایک تو یہ کہ بھارت خطے کے دوملکوں پاکستان اور چین کے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، دوسرا یہ کہ اپنے سیاسی مفاد میں وزیر اعظم مودی پاکستان مخالف بیانیہ جاری رکھیں گے، اور تیسرا یہ کہ پاکستان اس وقت عدم استحکام کا شکار ہے اور نئی دہلی کی یہ سوچ ہو سکتی ہے کہ وہ اس غیر یقینی صورت حال میں کس سے بات کرے اور اس کا کیا فائدہ ہوگا۔"

تاہم یو ایس آئی پی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات کی بحالی کی جانب جانے کےکئی اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔

محقق ڈاکٹر سنجے کتھوریا کے مطابق اب تک دونوں ملکوں میں کشمیر میں ایل و سی پر جنگ بندی برقرار ہے، دوم یہ کہ نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں نے تجارت پر پابندی کا اعلان نہیں کیا ہے اور اس کی بحالی کی راہ کھلی رکھی ہے۔

ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے سے خطے کے دوسرے ملکوں خصوصاً وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو مستقبل میں بھارت اس کے ذریعہ اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے مستفید ہو سکتا ہے۔

یو ایس آئی پی کی رپورٹ کہتی ہے اب جبکہ دوبارہ منتخب حکومتیں اقتدار میں آگئی ہیں، اگلے چند ماہ میں دوطرفہ تجارتی بات چیت کے لیے کچھ سیاسی گنجائش موجود ہے۔

سنجے کتھوریا، جو عالمی بینک سے بھی منسلک رہ چکے ہیں، نوٹ کرتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں بھارت سے بالواسطہ درآمدات کی بلند قیمتوں کا حوالہ دیتے ہوئے تاجر برادری کی بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کو تسلیم کیا تھا۔

تاہم، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی اب بھی نازک ہے اور دہشت گرد حملوں، اور ملکی اور خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی سے خطرات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق تجارتی تعلقات کی پوری طرح بحالی پائیدار امن کے لیے حالات پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر تجارت کو اس کی صلاحیت کے مطابق بڑھنے دیا جائے، تو یہ دوسرے زیادہ متنازعہ مسائل پر بات کرنے کے لیے بھی مواقع پیدا کر سکتی ہے۔ دونوں فریقین کو سنجیدہ تجزیہ کے ساتھ یہ دیکھنا چاہیے کہ تجارتی تعلقات کو بحال کرنے کے طویل المعیاد فوائد کیا ہیں۔ رپورٹ کے مطابق متبادل صورت میں "دونوں ممالک کے لیے بھاری قیمت کے ساتھ ایک غیر مستحکم تعلق ہے۔"

ذکی قریشی کہتے ہیں کہ نئی دہلی کا ایس سی او اجلاس میں شرکت پر موقف اس بات کو ظاہر کرے گا کہ پاکستان اور بھارت مستقبل قریب میں دو طرفہ تجارت کو بحال کریں گے یا نہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG