|
سن 1947 میں برصغیر سے برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت اور پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی خطے میں کشمیر کے تنازع نے بھی جنم لیا۔
یہ تنازع جہاں ایک جانب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگوں اور کشیدہ تعلقات کی وجہ بنا وہیں اس نے دونوں ممالک کی اندرونی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔
اپنی سیاسی اہمیت کے ساتھ ساتھ کشمیر سے متعلق دونوں ممالک کے لیے یہ سوال بھی اہم رہا ہے کہ اس کا آئینی و قانونی بندوبست کس نوعیت کا ہو گا؟
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کشمیر ہندوستان کی ان ساڑھے 500 سے زائد ریاستوں میں شامل تھا جن پر براہِ راست برطانیہ کی حکومت نہیں تھی اور تاجِ برطانیہ نے ان کی مختلف سطحوں پر آزادانہ حیثیت کو تسلیم کیا ہوا تھا۔
اس لیے تقسیم کے وقت برطانیہ نے اپنے زیرِ انتظام علاقوں کی تقسیم کے لیے تو کوئی نہ کوئی کلیہ طے کیا تھا۔ لیکن شاہی ریاستوں سے متعلق صورتِ حال ابہام کا شکار رہی۔
برطانوی ہندوستان میں شامل علاقوں کی تقسیم کے لیے وہاں مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تناسب کا ایک اصول رکھا گیا تھا۔ لیکن شاہی ریاستوں میں کئی ایسی تھیں جن میں آبادی کی اکثریت حکمران خاندان سے الگ مذہب رکھتی تھی۔
جونا گڑھ اور حیدرآباد جیسی بڑی ریاستوں میں حکمران مسلمان تھے اور رعایا کی اکثریت ہندو تھی۔
جموں و کشمیر ایسی شاہی ریاست تھی جس کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اس پر حکمرانی کرنے والا ڈوگرہ خاندان ہندو تھا۔
بھارت سے الحاق اور اس کے بعد ۔ ۔ ۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت جموں و کشمیر کے علاقے پونچھ میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت ہوئی اور اسی دوران پاکستان میں شامل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد جموں و کشمیر میں داخل ہو گئے تھے۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے جو اس سے قبل کشمیر کے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق یا آزادانہ حیثیت سے متعلق کوئی فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے، پاکستان سے قبائلیوں کی آمد کے بعد انہوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیا۔
کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ اس دستاویز کے مطابق مہاراجہ نے بھارت کی مرکزی حکومت کو خارجہ، دفاع اور مواصلات کے اختیارات دیے تھے تاہم کشمیر کی ریاست کا علیحدہ تشخص برقرار رکھا گیا تھا۔
اگلے ہی روز 27 اکتوبر کو بھارت کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بینٹن نے مہاراجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم کر لیا۔
جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کے اس فیصلے کے بعد پاکستان کے ساتھ یہ تنازع مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گیا اور دونوں ممالک میں جنگ شروع ہو گئی۔ 1949 میں اقوامِ متحدہ کی ثالثی سے بھارت اور پاکستان میں جنگ بندی ہوئی۔ لیکن اس کے ساتھ جموں و کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسے تنازع کی شکل اختیار کر گیا جسے اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا تھا۔ ادھر مہاراجہ کشمیر نے بھی الحاق میں جموں و کشمیر کے علیحدہ ریاستی تشخص پر اصرار کیا تھا۔
اسی لیے جب بھارت میں آئین سازی ہوئی تو ملک میں شامل علاقوں کی درجہ بندی کرتے ہوئے کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو مدِ نظر رکھا گیا۔
بھارت کا آئین 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا تو اس میں شامل آرٹیکل 370 کے تحت بھارت کی مرکزی حکومت کو کشمیر میں صرف تین شعبوں یعنی دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے لیے قانون سازی کا اختیار دیا گیا تھا۔
آرٹیکل 370 میں کشمیر کو داخلی انتظامی امور کے لیے قانون سازی کی آزادی دی گئی تھی جب کہ صدر کو بعض امور سے متعلق جزوی اختیار بھی دیا گیا تھا۔
اس آرٹیکل میں یہ شق بھی شامل تھی کہ انتظامی امور اور خود ریاست جموں و کشمیر کی بھارت میں انتظامی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے کو بھی یہاں کی دستور ساز اسمبلی سے توثیق حاصل کرنا ضروری ہو گا۔
بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم ہونے کے بعد 27 اکتوبر 1950 کو کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کی جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے ایک قرار داد منظور کر کے بھارت کی مرکزی حکومت سے کشمیر میں دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس مطالبے کے بعد اگست اور ستمبر 1951 میں بھارت میں ریاستی الیکشن ہوئے جس کی تمام ہی 75 نشستوں پر شیخ عبداللہ کی جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے ارکان منتخب ہو گئے۔
دستور ساز اسمبلی کے قیام کے بعد ریاست جموں و کشمیر اور بھارت کی مرکزی حکومت کے درمیان ٹیکس، قانون سازی، سپریم کورٹ کے قانونی اختیار سمیت دیگر انتظامی امور پر مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں 1952 کا ’معاہدۂ دہلی‘ ہوا۔
اس معاہدے کے تحت کشمیر کی علاقائی سالمیت، جموں و کشمیر کی مستقل شہریت اور وہاں جائیداد رکھنے کے حق کو ریاست کے مقامی افراد کے لیے خاص کرنے جسیی تجاویز پر اتفاق ہوا۔ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے 1954 میں بھارت کے صدر راجندر پرساد نے صدارتی حکم نامہ جاری کیا اور آئین میں آرٹیکل 35 اے بھی متعارف کرایا گیا۔
ریاست جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے پانج برس کی مدت میں آئین سازی مکمل کی اور 17 نومبر 1956 کو اس کی منظوری دے دی۔
اس آئین میں ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا لازمی حصہ قرار دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی دستور ساز اسمبلی تحلیل ہو گئی۔
بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر ریاست کے دستور میں کسی بھی صدارتی حکم نامے کے نفاذ کو ریاستی اسمبلی کی توثیق سے مشروط کیا گیا تھا۔ 1959 میں بھارتی سپریم کورٹ نے ریاستی اسمبلی کے اس استحقاق کو تسلیم کیا۔ تاہم 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلقہ امور بھارتی سپریم کورٹ کے مختلف مقدمات میں زیرِ بحث آتے رہے۔
سن 1968 میں سمپت پرکاش بنام ریاست جموں و کشمیر کیس میں بھارت کی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کو بھارتی آئین کا ’پرمننٹ فیچر‘ یعنی مستقل حصہ قرار دیا۔ تاہم 1972 کے ایک اور فیصلے میں سپریم کورٹ نے صدر جمہوریہ کو آرٹیکل 370 میں معمولی تبدیلیوں اور ترامیم کا اختیار تسلیم کیا۔
اگرچہ آرٹیکل 370 میں یہ بات شامل تھی کہ اس میں دیے گئے انتظامی امور سے متعلق خصوصی اختیار میں کوئی تبدیلی یا خود اس آرٹیکل ہی کو سرے سے ختم کرنے کے لیے ریاستی اسمبلی کی توثیق ضروری ہوگی۔
تاہم پھر بھی یہ آرٹیکل مختلف عدالتی تنازعات کا بنیادی نکتہ بنا رہا البتہ 2016 کے سپریم کورٹ کے فیصلے اور جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ کے فیصلوں میں بھی اس آرٹیکل کی منسوخی کو ریاستی اسمبلی سے مشروط قرار دیا گیا۔
دائیں بازو کی قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی حامی رہی ہے۔
اس جماعت نے جب 2014 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نریندر مودی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تو آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حامیوں کے مطالبات بھی زور پکڑنے لگے۔
سن 2018 میں جموں و کشمیر میں اس وقت سیاسی بحران نے جنم لیا جب بھارتیہ جنتا پارٹی نے وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت میں قائم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت کی حمایت واپس لے لی۔
اس کے بعد کشمیر کے آئین کے مطابق گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ تاہم ریاست جموں و کشمیر کے آئین کے تحت گورنر راج چھ ماہ سے زائد عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔
اس لیے 19 دسمبر 2018 کو کشمیر میں گورنر راج کا خاتمہ تو ہو گیا تاہم اسی روز صدر رام ناتھ کوند نے کشمیر میں صدارتی راج نافذ کردیا۔ جنوری 2019 میں صدر کے اس اقدام کو پارلیمنٹ کی توثیق حاصل ہو گئی۔
صدراتی راج کی مدت بھی جولائی 2019 میں ختم ہونے والی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے گورنر نے جون 2019 کو ایک رپورٹ وفاقی کابینہ کو ارسال کی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ریاست کی صورتِ حال کے پیش نظر صدارتی راج میں مزید توسیع کی جائے۔
اس رپورٹ کی بنیاد پر تین جولائی 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں صدارتی راج میں مزید توسیع کر دی گئی۔
پانچ اگست 2019 کو صدر رام ناتھ کوند نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں آرٹیکل 370 کی شق 3 میں ’دستور ساز اسمبلی‘ کے لفظ کو ’قانون ساز اسمبلی‘ سے تبدیل کردیا گیا۔
اس شق کے تحت چوں کہ کسی بھی صدارتی حکم نامے کی توثیق ’دستور ساز اسمبلی‘ سے حاصل کرنا ضروری قرار دی گئی تھی جو کہ ساٹھ برس قبل ہی تحلیل ہو چکی تھی۔
اس لیے قانون ساز اسمبلی کو اس سے تبدیل کر کے صدارتی راج کے حکم نامے کی بھارت کی پارلیمنٹ سے توثیق کو اس شق کے مطابق بنا دیا گیا۔
صدر کے اس اقدام کے ساتھ ہی بھارت کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور کشمیر کی انتظامی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازی کی قرار داد منظور کر لی۔
اس کے اگلے ہی روز چھ اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا نے راجیہ سبھا کی قرار داد کے مطابق 370 کی منسوخی اور کشمیر میں انتظامی تبدیلیوں کے لیے مجوزہ ’ری آرگنائزیشن ایکٹ‘ کی منظوری دے دی۔
اس کے بعد صدر نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کا حکم نامہ جاری کردیا۔
اس اقدام کے بعد نو اگست 2019 کو جموں اینڈ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 بھی منظور کرلیا گیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔
اس قانون کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست کے لیے قانون ساز اسمبلیوں کے قیام کی منظوری دی گئی تھی جب کہ لداخ کے لیے نہیں۔
مختلف درخواست گزاروں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں 28 اگست 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس عبدالنذیر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت شروع کی۔
سپریم کورٹ میں دو سماعتوں کے بعد بینچ نے فیصلہ دیا کہ اس معاملے کی سماعت پانچ یا اس سے زائد رکنی بینچ کو کرنی چاہیے۔
اس دوران آرٹیکل 370 کی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ کی تشکیل کی درخواست پر بھی سماعت ہوئی جو 2020 میں مسترد کردی گئی۔
طویل انتظار کے بعد جولائی 2023 میں ان درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سرپراہی میں ایک نیا پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
اسی پانچ رکنی بینچ نے 11 دسمبر 2023 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا حکومتی اقدام قانونی طور پر درست قرار دیا تھا۔