|
ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 5 کروڑ 70 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے جو گہرے سمندروں سے لے کر بلند ترین پہاڑوں اور لوگوں کے جسم تک پہنچتا ہے ۔
ریسرچرز کےمطابق اس کچرے کا ڈھیر ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جتنا بلند ہے اور اس سے ہر سال نیو یارک شہر کا سنٹرل پارک بھر سکتا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا دو تہائی سے زیادہ گلوبل ساؤتھ سے آتا ہے۔جن میں شمالی نصف کرے کے بہت سے ملک اور جنوبی افریقہ کے سبھی ملک شامل ہیں۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آ ف لیڈز کے محقیقن کی اس ریسرچ میں جو حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوئی دنیا بھر کے پچاس ہزار سے زیادہ شہروں اور قصبوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے پلاسٹک کے اس کچرے کا جائزہ لیا گیا جوکھلی جگہوں پر اکٹھا ہوتا ہے۔ اس میں وہ کوڑا کرکٹ شامل نہیں جسے زمین میں دبا کر یا جلا کر تلف کر دیاجاتا ہے۔
بھارت پلاسٹک کا کچرا پیدا کرنے والے ملکوں میں سر فہرست
ریسرچ کے مطابق بھارت پلاسٹک پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال 10.2 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتا ہے، اس کے بعد نائیجیریا اورانڈونیشیا دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، چین چوتھے نمبر پر ہے لیکن وہ کچرا کم کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کررہا ہے۔
ان کے بعد پلاسٹک کی سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں میں پاکستان ، بنگلہ دیش، روس اور برازیل کا نمبر آتا ہے ۔
ریسرچ کےمطابق امریکہ ساڑھے 52 ٹن سےزیادہ پلاسٹک کا کچرا پیدا کر کے آلودگی پیدا کرنے والے ملکوں میں 90 ویں نمبر پر ہے اور لگ بھگ 5100 ٹن کچرے کے ساتھ برطانیہ 135 ویں نمبر پر ہے۔
سب سے زیادہ پلاسٹک کچرا پیدا کرنے والے شہر
لیڈز کی ریسرچ کے ماحولیاتی انجینئیرنگ کے پروفیسر اور ریسرچ کے مصنف کوسٹاس ویلس نے کہا کہ ریسرچ سے ظاہرہوا کہ نائیجیریا کا شہر لاگوس، دنیا بھر میں سب سے زیادہ پلاسٹک کی آلودگی پیدا کرنے والا شہر تھا۔
اس کے بعد دوسرے شہروں میں بھارت کا شہر نئی دہلی انگولا کاشہر لواندا،پاکستان کا شہر کراچی ، اور مصر کا شہر قاہرہ شامل تھے ۔
تحقیق کے مصنفین نے بتایا کہ دنیا کی 15 فیصد آبادی کے لیے حکومتیں اس کچرے کو اکٹھا کرنے اور تلف کرنے میں ناکام رہتی ہیں ۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا اور سب صحارا افریقہ پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرتا ہے ۔ ان میں بھارت کے ساڑھے 25 کروڑ لوگ شامل ہیں، جن کیلئےکوڑے کرکٹ کی تلفی کا مناسب بندوبست موجود نہیں ہے۔
سال 2021 میں دنیا کے بیشتر ملک، سمندروں سمیت، پلاسٹک کی آلودگی پر قانونی طور پر پابند ایک معاہدے پر متفق ہو گئے تھے ۔ فائنل معاہدہ رواں سال نومبر میں جنوبی کوریا میں ہورہا ہے۔
مائیکرو پلاسٹکس
ویلس نے بتایا کہ اس ریسرچ میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی مدد سے ٖغیر مناسب طریقے سے جلائے جانے والے یاصرف دبائے جانے والے پلاسٹک یعنی 57 فیصد کچرے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ۔
دونوں صورتوں میں مائیکرو پلاسٹکس یا نینو پلاسٹکس نمایاں مسئلے کے طو پر سامنے آئے جو جو ساحلوں پر بکھری ہوئی حالت میں ملتا ہے۔ جو ماحول، انسانوں اور آبی حیات کے لیے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
اس سال متعدد ریسرچز میں جائزہ لیا گیا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک یا پلاسٹک کے ذرات ہمارے پینے کے پانی اور لوگوں کے ٹشوز مثلاً دل، دماغ اور ٹیسٹیکلز میں کس حد تک موجود ہیں اور ڈاکٹر اور سائنسدان ابھی تک یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا یہ انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ویلس نے کہا کہ مائیکرو پلاسٹک کا سب سے بڑا ٹائم بم یہ ہے کہ یہ خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں پیدا ہوتے ہیں، جہاں ان کی تلفی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی دور دراز علاقوں می ہیں ، ایورسٹ کی چوٹیوں سے لے کر، ویسٹ پیسیفک میں مریانا ٹرینچ تک، اس ہوا میں جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور ہمارے کھانے پینے کی ہر چیز میں موجود ہیں ۔ انہوں نے اسے ہر ایک شخص کا اور ایک ایسا مسئلہ قرار دیا جو مسقبل کی نسلوں تک چلے گا۔
مسئلے کی سب سے بڑی وجہ وسائل کا فقدان
ویلس نے کہا کہ ہمیں اس پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کیلئے گلوبل ساؤتھ کو کسی بھی طرح مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے ۔ اور ہمیں کسی بھی طرح گلوبل نارتھ کے ملکوں کی اس حوالے سے تعریف نہیں کرنی چاہیے جو وہ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کرتے ہیں۔
بقول انکے یہ صرف وسائل کے فقدان اور حکومتوں کی جانب سے شہریوں کو ضروری سہولیات پہنچانے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔
ریسرچ میں پلاسٹک انڈسٹری کا ذکر نہیں کیا گیا
اس ریسرچ کے نتائج کا جائزہ لینے والے بیرونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ صرف آلودگی پر مرکوز ہے نہ کہ پلاسٹک کی مجموعی پیداوار پر۔ اور پلاسٹک انڈسٹری کو اس مسئلے سے الگ کر دیا گیا ہے ۔
جب کہ پلاسٹک بنانے کے عمل میں بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی میں ایک کردار ادا کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں صرف پلاسٹک کے کچرے پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے بلکہ پلاسٹک انڈسٹری پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو اتنا زیادہ پلاسٹک پیدا کر رہی ہے جن سے بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسں خارج ہو رہی ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ ہوری کہانی نہیں ہے
کچرے کی آلودگی کے سد باب سے متعلق ایک گلوبل نیٹ ورک ’زیرو ویسٹ اینڈ اینوائرنمینٹل جسٹس‘ کے سائنس ااور پالیسی کے سینئیر ڈائریکٹر آف نیل ٹنگری کہتے ہیں کہ ، ان ریسرچرز نے یہ کہتے ہوئے کہ مائیکرو پلاسٹکس اس کے بعد فضا میں شامل ہوتے ہیں جب صارف انہیں استعمال کرتا ہے اور اب ہمیں اس کچرے کا بہتر طور پر بندو بست یا اسے تلف کرنے کی ضرورت ہے ، پلاسٹک کو بہت زیادہ محدود طریقے سے پیش کیا ہے۔ لیکن یہ پوری کہانی نہیں ہے ۔
ماحولیات ، صحت اور کچرے کے مسائل سے متعلق ایک اور نیٹ ورک انٹر نیشنل پولیوٹینٹس الی مینیشن نیٹ ورک کی ٹیکنیکل مشیر تھریسا کارلس نے اس ریسرچ میں سامنے لائے جانے والے آلودگی کے حجم کوالارمنگ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پلاسٹک کے بکھرے ہوئے کچرے کی جو مقدار پیدا کی جارہی ہے اسے مینیج نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن انہوں نے کہا کہ اس ریسرچ میں پلاسٹک کے کچرے کی عالمی تجارت کی اہمیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کے تحت امیر ملک غریب ملکوں کو کچرا بھیج دیتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ تجارت کم ہو رہی ہے جیسا کہ چین نے کچرے کی درآمدات پرپابندی لگا دی ہے ۔لیکن کارلسن کا کہنا ہے کہ کچرے کی مجموعی تجارت اصل میں بڑھ رہی ہے اور اس میں پلاسٹک امکانی طور پر شامل ہے۔
انہوں نے یورپی یونین کا حوالہ دیا جس کی کچرے کی برآمدات 2004 میں 110،000ٹن تھی جو 2021 میں بڑھ کر ایک اعشاریہ چار ملین ٹن تک پہنچ گئی ۔
حل کیا ہے ؟
انٹر نیشنل کونسل آن کیمیکل ایسو سی ایشن کے سیکرٹری کرس جاہن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ریسرچ اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ پلاسٹک کے کچرے کو مناسب طریقے سے کنٹرول نہ کرنا اس کی الودگی کو پھیلانے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کے خاتمے کےلیے ان کی تلفی کا مناسب بندو بست انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔
معاہدے کی گفت و شنید میں انڈسٹری نے پلاسٹک کی پروڈکشن پر ایک حد لگانے کی مخالفت کی ہے ۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ پلاسٹک کی پروڈکشن امکانی طور پر لگ بھگ سالانہ 440 ملین ٹن سے بڑھ کر 1200 ملین ٹن سالانہ تک پہنچ جائے گی ۔
اس ریسرچ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم