رسائی کے لنکس

ایوان سے منظور 26ویں آئینی ترمیم میں کیا کیا ہے؟


  • ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
  • پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔
  • چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی۔
  • چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی ہے۔

ویب ڈیسک—حکومت کی پیش کی گئی 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے جس میں زیادہ تر ترامیم کا تعلق عدلیہ سے ہے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایم بی سومرو نے رپورٹ کیا کہ آئینی ترمیم کے تحت اب چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ بلکہ اعلیٰ عدالت کے سربراہ کا تقرر ایک کمیٹی کرے گی۔

یہ کمیٹی بھی سینئر ترین تین ججوں میں سے کسی ایک جج کو چیف جسٹس کے تقرر کی تجویز دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس کا تقرر

چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔

پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کرے گی۔

کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیرِ اعظم صدر کو ارسال کریں گے۔

کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔

چیف جسٹس کے تقرر کے لیے کمیٹی

چیف جسٹس کے تقرر کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔

آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پہلی مرتبہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے تین دن قبل نام بھجوایا جائے گا۔

بعد ازاں چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 14 روز قبل نام بھجوائے گی۔

پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔

اس کمیٹی میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی جب کہ چار ارکان سینیٹ سے ہوں گے۔

چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت

ایوان سے منظور ہونے والی آئینی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی۔

چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کی گئی۔

آئینی بینچوں کی تشکیل

سپریم کورٹ اور صوبوں میں قائم ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیے جائیں گے

شق 16 میں بھی مزید ترمیم کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین سے متعلق بینچوں کی تشکیل کے لیے مجلس شوریٰ (قومی اسمبلی) سے قرارداد منظور کرانا ہوگی۔

اسی طرح صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیاں قرارداد منظور کریں گی۔

جوڈیشل کمیشن آئینی بینچوں اور ججوں کی تعداد کا تعین کرے گا۔ کسی بھی آئینی بینچ میں شامل سینئر ترین جج اس آئینی بینچ کا سربراہ ہوگا۔ آئینی بینچوں میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججوں کو تعینات کیا جائے گا۔

ازخود نوٹس کا اختیار

آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچوں کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیس آئینی بینچوں کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

آرٹیکل 186 کے تحت عدالت کے ایڈوائزری اختیارات بھی آئینی بینچوں کے پاس ہوں گے۔
اس سے قبل صدرِ پاکستان کسی بھی عوامی اہمیت کے معاملے پر سپریم کورٹ سے قانونی رائے طلب کرسکتے تھے تاہم اب صدر کو مشاورت کا یہ اختیار صرف آئینی بینچ کو دے دیا گیا ہے۔

مقدمات کی سماعت

آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔

آرٹیکل 186-اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔

ججوں کا تقرر

آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر کمیشن کرے گا۔

چیف جسٹس کی زیرِ صدارت کمیشن میں آئینی بینچوں کا سینئر ترین جج بھی شامل ہوگا۔

کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔

پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کس کے لیے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:05 0:00

کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔

دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔

سینٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔

سود کا خاتمہ

پاکستان میں بینکنگ اور کسی بھی قسم کے لین دین سے سود کے خاتمے کے لیے بھی آئین میں ترمیم کی گئی ہے۔

آرٹیکل 38 میں کی گئی ترمیم کے تحت اب یکم جنوری 2028 تک ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔

وزیرِ اعظم یا کابینہ کی صدر کو تجویز پر کوئی سوال نہیں ہو سکتا

آرٹیکل 48 میں کی گئی ترمیم کے تحت وزیرِ اعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر کو ارسال کی گئی تجویز پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔

چیف الیکشن کمشنر یا رکن ریٹائرمنٹ کے بعد نئے تقرر تک کام جاری رکھے گا۔

آرٹیکل 229 اور 230 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں ہونے والی قانون سازی پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جا سکے گی۔

کوئی بھی معاملہ 25 فی صد ارکان کی حمایت سے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جا سکے گا۔

آئین میں ایک نئی شق آرٹیکل نو اے بھی متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی شہری حقوق میں شامل کردیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG