|
اسلام آباد -- پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں نے حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی کم اسپیڈ، فائر وال کی تنصیب اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کو قومی سلامتی سے جوڑنے پر تنقید کی ہے۔
پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے بدھ کو قومی اسمبلی میں حکومتی اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انٹرنیٹ بند کرتے ہوئے انہیں خوشی ہوتی ہے نہ کوئی فائدہ لیکن قومی سلامتی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم 'بائٹس فار آل' کے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش کا دفاع بلاجواز ہے اور نہ ہی اسے قومی سلامتی سے جوڑا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر کا دعویٰ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون سازی اور دیگر اقدامات سے یہاں بھی روایتی میڈیا کی طرح پابندیاں لگانا چاہتی ہے۔
خیال رہے کہ حکومت میڈیا پر قدغن کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق 30 ارب روپے کی لاگت سے فائر وال نصب کی جا رہی ہے جس کے بعد سے انٹرنیٹ سروسز میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اس سے قبل بھی حکومت الیکٹرانک جرائم کے انسداد کا متنازع قانون پیکا ایکٹ لائی اور اب اس میں مزید ترامیم لائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت غیر پسندیدہ مواد قرار دے کر ہر سال 'ٹک ٹاک' اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز سے مواد ہٹواتی ہے اور صرف گزشتہ سال 'ٹک ٹاک' نے پاکستان سے 40 لاکھ سے زائد ویڈیوز ہٹائیں تھیں۔
'اگر دو فی صد پاکستانی ایکس استعمال کرتے ہیں تو یہ بند کیوں ہے'
ہارون بلوچ کے بقول حکومت 'ڈیجیٹل آمریت' کی طرف جا رہی ہے اور انٹرنیٹ پر اپنی خود مختاری چاہتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے مطابق صرف دو فی صد پاکستانی 'ایکس' استعمال کرتے ہیں اور سے بند کرنے سے فرق نہیں پڑتا تو ان کے بقول اگر فرق نہیں پڑتا تو حکومت نے ایک سال سے اسے بند کیوں رکھا ہوا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک عرصے سے حکومت اور ریاستی اداروں کو شکایات رہی ہیں کہ ان پر حکومت مخالف پروپیگنڈے اور الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
وزیر مملکت شزہ خواجہ نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ آئی ٹی برآمدات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور گزشتہ پانچ ماہ میں یہ اضافہ 34 فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
'آئی ٹی برآمدات کم ہو رہی ہے'
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین سجاد مصطفی سید کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی کم رفتار اور بندش جیسے مسائل سے آئی ٹی کی برآمدات کم ہوئی ہیں اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف گزشتہ ماہ میں آئی ٹی برآمدات 34 فی صد سے کم ہوکر 25 فی صد پر آ گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک ماہ میں برآمدات میں نو فی صد کی کمی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس شعبے پر مجموعی کتنا اثر پڑا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو 20 سے 25 ملین ڈالر روزانہ کا نقصان ہوا ہے۔
چیئرمین پاشا کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ یہ طے پایا ہے کہ قومی سلامتی یا سیاسی مسائل کی بنا پر آئی ٹی کمپنیوں کو انٹرنیٹ کی فراہمی مستقبل میں بند نہیں ہو گئی۔
اس مقصد کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی آئندہ ماہ سے وی پی این سروس پروائیڈرز کی رجسٹریشن شرو کر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں آئی ٹی کمپنیوں کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔
فری لانسرز کے لیے کام کرنے والی کمپنی 'فائیور' نے پاکستان میں انٹرنیٹ اسپیڈ نہ ہونے کی وجہ سے فری لانسرز کی عدم دستیابی کا بھی کہہ دیا ہے۔
ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کے باعث فری لانسرز کو ملنے والے کام میں کمی واقع ہوئی ہے۔
'بائٹس فار آل' کے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد فری لانسرز کی ہے جو گھروں سے کام کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کی بندش اور کم اسپیڈ کی وجہ سے انہیں بھی نقصان ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب 'فائیور' نے کہا کہ پاکستان میں کام دیتے وقت محتاط رہیں تو اس کے نتیجے میں یقیناً آئی ٹی برآمدات کم ہوئی ہیں اور اس کے اعداد و شمار آئندہ آنے والے ماہ میں سامنے آ جائیں گے۔
فورم