|
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے 14 ماہ سے زائد عرصے سے قید یرغمالو ں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں "کچھ پیش رفت" ہوئی ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں قانون ساز ارکان سے یہ گفتگو، حماس کے اس بیان کے دو روز بعد کی جس میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم نے ایک غیر معمولی مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ غزہ لڑائی میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ "پہلے سے زیادہ قریب" ہے۔
اسی اثنا میں اسرائیل کے فلسطینی علاقے غزہ پر حملے بھی ہو رہے ہیں جہاں متعدد ہلاکتوں اور زخمیوں کی اطلاعات ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات دوحہ میں ہوئے جن سے معاہدے کے طے پانے کے بارے میں امید پیدا ہوئی ہے۔
اس حوالے سے تفصیلات بتائے بغیر نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ "ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ ہم انہیں (یرغمالوں کو) واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔"
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، "میں احتیاط سے کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے، اور جب تک ہم ان سب کو گھر نہیں لے آتے، ہم اس وقت تک کام کرنا بند نہیں کریں گے۔"
یرغمالوں کے خاندانوں کےحکومتی کوششوں پر سوالات
یرغمالوں کے اہل خانہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا،" ہم آپ کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ہم آپ کے پیاروں کے بارے میں کوششوں سے دستبردار نہیں ہوں گے،وہ ہمارے پیارے بھی ہیں۔"
یرغمالوں کے خاندانوں نے نیتن یاہو حکومت کی مذاکراتی کوششوں کے اخلاص پر سوال اٹھائے ہیں۔
اس کے علاوہ ناقدین طویل عرصے سے نیتن یاہو پر جنگ بندی کے مذاکرات میں تعطل کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
ناقدین کا الزام ہے کہ نیتن یاہو اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے جنگ کو جزوی طور پر طول دے رہے ہیں۔
حماس کیا کہتا ہے؟
دوسری طرف مذاکرات کے حوالے سے حماس، اسلامی جہاد اور بائیں بازو کے پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین نے ہفتے کے روز کہا کہ پیش رفت ہوئی ہے۔
گروپوں نے قاہرہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کے بعد کہا کہ "ایک معاہدے تک پہنچنے کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے، بشرطیکہ دشمن نئی شرائط عائد کرنا بند کردے۔"
گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران حماس نے 251 افراد کو اغوا کر لیا تھا۔ ان میں سے کچھ کو نومبر 2023 کی مختصر جنگ بندی کے دوران رہا کردیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق 96 یرغمال ابھی غزہ میں موجود ہیں جبکہ 34 کو اسرائیلی فوج نے مردہ قرار دیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں مذاکرات کاروں کو متعدد مسائل کا سامنا رہا ہے جن میں دیرپا جنگ بندی کا قیام بنیادی نکتہ ہے۔
جنگ کے بعد علاقے کی حکمرانی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے 23 اکتوبر کو زور دیا تھا کہ ایسے میں جب اسرائیل نے حماس کی فوجی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے، اس کی اعلیٰ قیادت کو ختم کر دیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ یرغمالوں کو گھر پہنچایا جائے اور یہ جان کر جنگ کو ختم کیا جائے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔
پیر کو نیتن یاہو نے اپنے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے میں دوبارہ دفاع کا موقف اختیار کیا۔
اسرائیل کے عرب ممالک سے تعلقات میں بہتری کی خواہش
وسیع تر خطے میں تعلقات کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں نیتن یاہو نے کہا کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ نئے امن معاہدوں پر دستخط کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں 2020 میں طے پانے والے "ابراہم معاہدے" کے تحت ہوا تھا۔
یاد رہے کہ ان معاہدوں میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے تھے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اعتدال پسند عرب ممالک اسرائیل کو ایک "علاقائی طاقت اور ممکنہ اتحادی" کے طور پر دیکھتے ہیں۔
"میں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔"
اس ضمن میں امریکہ کے حوالے سے نیتن یاہو نے کہا،"اپنے امریکی دوستوں کے ساتھ مل کر، میں ابراہم معاہدے کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہوں... اور اس طرح مشرق وسطیٰ کے چہرے کو اور بھی ڈرامائی طور پر تبدیل کروں گا۔"
غزہ پر مزید اسرائیلی حملے اور ہلاکتیں
ادھر غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے جاری ہیں۔
محصور علاقے کے طبی ماہرین نے پیر کو بتایا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں رات بھر کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ ٹام فلیچر نے پیر کو کہا کہ اسرائیل غزہ کے گنجان آباد علاقوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیلی حملوں کا ہدف بننے والے علاقوں میں وہ مقامات بھی شامل ہیں جہاں اسرائیلی فورسز نے لوگوں کو نقل مکانی کرنے کا حکم دیا تھا۔ نتیجتاً ان مقامات پر فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں اور تباہی اور ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔
اسرائیل کا ایسے حملوں کے بارے میں یہ موقف رہا ہے کہ آبادی والے علاقوں میں حماس کارروائی کا ذمہ دار ہے کیونکہ یہ گروپ وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتا ہے۔
پچھلے سال اکتوبر میں حماس عسکریت پسندوں کے جنوبی اسرائیل پر حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 کے قریب افراد ہلاک ہو ئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے۔
دوسری طرف غزہ کی وزارت صحت کے مطابق فلسطینی علاقے پر اسرائیلی جوابی کارروائیوں میں اب تک 45,200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ غزہ کی وزارت اپنی گنتی میں عام شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتی ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم