رسائی کے لنکس

پاکستان مخالف پناہ گزین ہمارے 'مہمان' ہیں: افغان طالبان


  • ملکی روایات کے مطابق پاکستان سے آنے والے لوگ افغانستان کے مہمان ہیں، افغان وزیرِ اطلاعات
  • ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے مہمانوں اور دوستوں کی حفاظت کر رہے ہیں، خیر اللہ خیرخواہ
  • پاکستان کو برطانیہ، سابق سویت یونین اور امریکہ کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی عسکری مداخلت کے نتائج سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، وزیرِ اطلاعات
  • طالبان نے منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ صوبہ پکتیکا میں پاکستان کی فضائی کارروائی میں تقریباً 50 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
  • حکومتِ پاکستان نے سرحد پار کی جانے والی کارروائی کو تاحال تسلیم نہیں کیا ہے۔

ویب ڈیسک افغانستان میں طالبان حکومت کے سینئر رہنما نے اشارہ دیا ہے کہ اُن کی حکومت پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

طالبان رہنما کے مطابق ملکی روایات کے مطابق پاکستان سے آنے والے لوگ افغانستان کے "مہمان" ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیرِ اطلاعات خیراللہ خیرخواہ کا یہ بیان پاکستان کی جانب سے افغانستان کے سرحدی علاقے میں کی جانے والی مبینہ فضائی کارروائی کے بعد سامنے آیا ہے۔

طالبان نے منگل کو دعویٰ کیا تھا کہ صوبہ پکتیکا میں پاکستان کی فضائی کارروائی میں تقریباً 50 شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں سے بیشتر پاکستانی مہاجرین تھے۔ البتہ اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا کہنا تھا کہ اسے "مصدقہ اطلاعات موصول" ہوئی ہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے سرحدی صوبے میں کی جانے والی فضائی کارروائی میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے سرحد پار کی جانے والی کارروائی کو تاحال تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن پاکستانی سیکیورٹی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا ہے کہ فوجی کارروائی میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے "متعدد ٹھکانوں" کو تباہ کیا گیا۔

طالبان حکومت کے وزیرِ اطلاعات نے پاکستان کی فضائی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے مہمانوں اور دوستوں کی حفاظت کرنے کے لیے افغان قوم کے عزم کا احترام کرنا چاہیے۔

طالبان کے زیرِ کنٹرول سرکاری ٹیلی ویژن اور سوشل پلیٹ فارم ایکس پر جمعے کو خیراللہ خیرخواہ کی جاری کردہ تقریر میں انہیں بظاہر ٹی ٹی پی کا حوالہ دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو برطانیہ، سابق سویت یونین اور امریکہ کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی عسکری مداخلت کے نتائج سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

خیرخواہ نے اس بات پر زور دیا کہ جو کوئی بھی افغانستان پر حملہ کرتا ہے یا اس طرح کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے تین سپر پاور کو ہونے والی شکست سے سیکھنا چاہیے۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے متعلق طالبان کے کسی سینئر رہنما کی جانب سے یہ پہلا عوامی سطح پر اعتراف ہے۔

اس سے قبل طالبان اپنی سر زمین پر ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ افغان طالبان یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی دہشت گردوں کو سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور افغان سر زمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

اقوامِ متحدہ ٹی ٹی پی کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔ افغان طالبان کے اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور اب تک سینکڑوں پاکستانی سویلین اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعے کو کہا تھا کہ اُن کی حکومت افغانستان کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے۔ لیکن سرحد پار سے ٹی ٹی پی کا خطرہ تعلقات کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔

خیراللہ خیرخواہ کون ہیں؟

خیراللہ خیرخواہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں رہنے والے طالبان رہنما ہیں جنہیں امریکی فورسز نے پاکستان کے تعاون سے 2002 میں حراست میں لیا تھا اور پھر گوانتاناموبے حراستی مرکز میں منتقل کر دیا تھا۔

سال 2014 میں قطر کی ثالثی میں امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے طالبان کے چار رہنماؤں کو آزادی ملی تھی جس میں خیراللہ خیرخواہ بھی شامل تھے۔

فورم

XS
SM
MD
LG