مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پربنگلہ دیش میں قومی زبان کی تحریک میں اپنی جانیں قر بان کرنے والوں کا بھی دن منایا گیا۔ اس روز ان سرگرم کارکنوں کو یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے 1952 میں بنگالی زبان کو ملک کی قومی زبان قراردینے کے لیے تحریک چلائی اوراپنی جان کی قربانی دی۔ اس وقت بنگلہ دیش قائم نہیں ہوا تھا اور وہ مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔
اس وقت کے مغربی پاکستان نے بنگالی کو پاکستان کی سرکاری زبان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اوراردو کو پورے پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا تھا، جس میں اس وقت کا مشرقی پاکستان بھی شامل تھا۔
اردو زبان کو پورے ملک کی سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان میں سخت احتجاج کیا گیا ، کیونکہ اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کی زبان بنگلہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ زبان کی اس تحریک سے بنگلہ دیش کو ایک آزاد اور خود مختارعلیحدہ ملک بنانے کی جدو جہد کا آغاز ہوا۔
بنگلہ دیش کی ایما پر یونیسکو نے ا21 فروری کو مادری زبان کا بین الاقوامی دن منانے کا اعلان کیا۔
اس دن کے موقع پر بنگلہ دیش کے صدر محمد عبدلحامد اور وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنے پیغامات میں جانیں قربان کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ صدر حامد نے کہا کہ ان مٹ لسانی تحریک کی روح نے عوام میں خود مختاری کے حق کو حاصل کرنے کا حوصلہ دیا۔
دارالحکومت ڈھاکہ کے" شہید مینار" پراس دن کو منانے والوں نے جمع ہوکرقربانی دینے والوں کو یاد کیا اوراس بات کا شکوہ بھی کیا کہ ابھی تک بنگلہ زبان کو وہ اہمیت نہیں مل سکی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔
ایک نوجوان بنگالی علی بردی خان نے کہا کہ ابھی تک ملک کی اعلیٰ عدالت یعنی سپریم کورٹ میں فیصلے انگریزی میں سنائے جاتے ہیں۔
ڈھاکہ میں قائم فنون لطیفہ کے مشہور انسٹی ٹیوٹ" بلبل اکیڈمی" کے سربراہ محمد حسّان الرحمان بچّو نے کہا کہ روزمرہ گفتگو میں انگریزی اور بنگلہ کو ملا کر بولنے کی عادت ترک کر دینی چاہیے۔ انہوں نے اس رجحان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یا آپ خالص بنگلہ بولیں یا انگریزی۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)