برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے باضابطہ طور پر یہ درخواست کی ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے چھوٹ دی جائے جو امریکہ کی جانب سے عالمی جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے بعد اس پر عائد ہو جائیں گی۔
یورپی ملکوں سے تعلق رکھنے والے وزرا نے پیر کے روز امریکی وزیر خزانہ سٹیون منوچن اور وزیر خارجہ مائک پومپیو کے ایک خط میں کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے مہینے جوہری معاہدے سے نکلنے کے فیصلے کو سختی سے کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اتحادیوں کی حیثیت سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ ایسے اقدامات سے گریز کرے گا جس سے یورپ کی سلامتی سے منسلک مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔
فرانس کے اقتصادی أمور کے وزیر برونو لی میئر نے کہا ہے کہ تین ملکوں اور یورپی یونین کی دیگر اقوام نے امریکہ سے کہا ہے کہ یورپی کاروباروں کو ایران کے ساتھ قانونی کاروبار کرنے کو تمام بیرونی امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ رکھے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ 2015 کا جوہری معاہدہ جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنے کے بدلے اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں اٹھانا تھا، تہران کے لیے زیادہ سخت نہیں تھا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی کسی بھی کمپنی پر پابندیاں لگا دی جائیں گی۔
بہت سے یورپی اور امریکی کمپنیوں نے ایران پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد، 2016 میں معاہدہ موثر ہونے کے بعد سے وہاں سرمایہ کاری کر رہی، ان میں سے اکثر کو پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے نقصان اٹھانا پڑے گا۔