رسائی کے لنکس

غنڈوں کے آگے ادارے خاموش کیوں ہیں: سپریم کورٹ


پاکستان سپریم کورٹ ۔ فائل فوٹو
پاکستان سپریم کورٹ ۔ فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کا نمائندہ سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نفرت انگیز رویے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غنڈوں کے آگے ادارے خاموش کیوں ہیں۔ آئی ایس آئی کے نمائندے کو مانیٹرنگ سیل کا بھی معلوم نہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا تھا۔ سماعت کے دوران وزارت داخلہ، دفاع اور اطلاعات کی نئی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئیں جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے سوشل میڈیا چینلز آج بھی چل رہے ہیں۔ کیا آئی ایس آئی اور آئی بی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج سب کا بنیادی حق ہے چاہتے ہیں سب قانون پر چلیں۔ صرف مسلمان ممالک میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا حساس اداروں کی اس بات پر نظر ہے۔

جسٹس فائز کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتا ملک کہاں جا رہا ہے۔ نفرت انگیز رویے میں اضافہ ہو رہا ہے، غنڈوں کے آگے ادارے خاموش کیوں ہیں، آئی ایس آئی کے نمائندے کو مانیٹرنگ سیل کا بھی معلوم نہیں، ملک کے چاروں ستون خطرے میں تھے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بھی خطرہ تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اگر کوئی خفیہ بات ہے تو ان کیمرہ بتا دیں، ایجنسیوں سے زیادہ معلومات میڈیا سے ملیں۔ کوئٹہ کمیشن میں بھی آئی آیس آئی نے وہی کچھ بتایا جو پہلے پبلک تھا۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ فورسز بہترین کام کر رہی ہیں۔ عدالتی ریمارکس سے غلط تاثر جائے گا معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکیورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے ملک کوبنایا ۔ دوسرے جو اس میں بس رہے ہیں۔ جنہیں ملک تحفے میں ملا وہ اس کو کھا رہے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس صرف ایک ملازم تھا۔ ملک دولخت ہوا تب آئی ایس آئی نہیں تھی اب ہے۔ سمجھ نہیں آتا آئی ایس آئی اور آئی بی کیا کر رہی ہیں۔ آخری کام یہی ہے رائفل چھوڑ کر گھر چلے جائیں۔

سماعت کے دوران نجی چینلز کی کوریج کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ قانون توڑنے پر کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ چینلز کی نشریات معطل کی گئیں تھیں۔ پیمرا آزاد ادارہ ہے کسی کے حکم کا تابع نہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پیمرا نے 5 کلو دستاویزات آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلیے دیں۔ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ کارروائی عدالت کرنا چاہتی ہے۔ قانون پر عمل نہیں کرنا تو اسے ختم کر دیں۔ ریاست کو پہلی دفعہ مفلوج نہیں کیا گیا۔ ریاست کو مفلوج کرنے کا یہ آخری موقع ہونا چاہیے۔ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے سوال کیا کہ 92 نیوز چینل کا مالک کون ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میاں رشید 92 نیوز کے مالک ہیں۔ جسٹس عیسیٰ نے سوال کیا کہ پیمرا نے اب تک چینل کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟ جس پر ڈی جی پیمرا نے بتایا کہ کسی چینل کو انفرادی طور پر نوٹس جاری نہیں کیا بلکہ پیمرا نے براہ راست تمام چینلز کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس فائز نے سوال کیا کہ کیا 92 نیوز کو معطل کردیا گیا ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ 92 نیوز کو کوئی شوکاز جاری نہیں کیا گیا۔ جسٹس فائز نے کہا کہ پیمرا نے اپنے قانون کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس فائز نے کہا کہ کیا 92 نیوز والے بہت طاقتور ہیں کہ کارروائی نہیں ہوئی۔ پیمرا اتھارٹی نے لوگوں کو قانون توڑنے کی اجازت دی۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا پیمرا کارروائی اتھارٹی کی منظوری سے کرتا ہے۔ پیمرا کی اتنی بڑی قانونی ٹیم آخر کیا مشورے دیتی ہے۔ ڈی جی پیمرا کا کہنا تھا کہ بعض اختیارات چیئرمین کو تقویض کیے گئے ہیں۔ جس پر قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ کہانیاں نہ سنائیں۔ بولنا ہے تو قانون کی کتاب سے پڑھ کر سنائیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنے کے دوران 139 ملین روپے سے زائد کا نقصان املاک کو پہنچا۔ فورسز کا کوئی جوان شہید نہیں ہوا۔ زخمی اہل کاروں کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔ جبکہ ایک پولیس اہل کار کی آنکھ ضائع ہو گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا مسلمانوں پر حملہ تھا۔ جسٹس فائز عیسٰی نے پوچھا کہ کیا دھرنا اسلام کےلیے تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے سے اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچا ۔

کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

فیض آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے دوران بیس روز سے زائد تک فیض آباد کا مقام بند رکھا جس سے لاکھوں لوگ شديد مشکلات کا شکار رہے۔ دھرنا کے بعد پولیس آپریشن کے دوران فائرنگ سے مبینہ طور پر 6 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ آپریشن کے بعد بھی صورت حال بہتر نہ ہونے پر فوج کی نگرانی میں ایک معاہدہ کروا یا گیا جس کے تحت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG