کابل میں ہفتے کے روز ایک سینیٹر کے بیٹے کی تدفین کے موقع پر تین بم د ھماکے ہوئے جن کی زد میں آکر کم ازکم 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ سینیٹر کا بیٹا جمعے کے روز کابل میں ہونے والے مظاہروں کے د وران ہلاک ہو گیا تھا۔
کئی حکومتی عہدے دار اور پالیمنٹ کے ارکان نے، جن میں افغان حکومت کے چیف ایکزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں ، سینیٹر محمد عالم ایزدیارکے بیٹے کی تدفین میں شرکت کی۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب کابل کا ایک بڑا حصہ جمعے کے مظاہروں کی وجہ سے بند پڑا تھا اور یہ مظاہرے ہفتے کے روز بھی جاری رہے۔
کابل میں جمعے کے مظاہروں میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں کم ازکم 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے، جو ان پر پتھراؤ کررہے تھے، ہوا میں لائیو گولیاں چلائی تھیں۔
بدھ کے روز کابل کے سفارتی علاقے میں ایک بڑے دہشت گرد حملے کے بعد پولیس کے خلاف برہمی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حملے میں 90 سے زیادہ افراد ہلاک اور 4 سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ یہ سن 2001 کے بعد سے سب سے زیادہ سفاکا نہ حملہ تھا۔
جمعے کے روز ہزاروں افراد نے ، جن میں سے اکثرنے دھماکے میں ہلاک ہو نے والوں کی تصویریں اٹھائی ہوئی تھیں، صدر اشرف غنی کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ صدراتی محل کی طرف مارچ کیا تھا۔اس موقع پر کئی مظاہرین نے اشرف غنی کے پتلے بھی جلائے ۔
پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے پانی کو توپیں استعمال کی اور آنسو گیس کے گولے پھینکے۔بعدا زاں ہوائی فائرنگ بھی کی۔اسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کم ازکم 4 افراد ہلاک ہوئے۔
کسی گروپ نے ابھی تک بدھ اور پھر تدفین کے موقع پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی نہیں کیا۔