اتوار کو جنوبی اضلاع شوپیان اور اننت ناگ میں پیش آنے والے واقعات میں 13 مبینہ عسکریت پسندوں اور چار شہریوں کی ہلاکت کے خلاف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیر کو دوسرے دن بھی عام ہڑتال کی گئی۔ ان جھڑپوں میں تین بھارتی فوجی بھی مارے گے تھے۔
کشیدگی میں اضافے اور شہری ہلاکتوں کے خلاف لوگوں کے شدید غم و غصے کے پیشِ نظر حکام نے شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سری نگر کے حساس علاقوں اور جنوبی قصبے کلگام میں کرفیو لگا دیا ہے جبکہ وادئ کشمیر کے بعض دوسرے حصوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے حفاظتی پابندیوں کے تحت لوگوں کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔
باقی ماندہ وادی اور ریاست کے جموں خطے کے بانہال اور چند دوسرے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہلاکتوں کے خلاف کی جاری عام ہڑتال کی وجہ سے کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کو جن میں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد اشرف صحرائی بھی شامل ہیں ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے جبکہ پولیس نے پیر کو علی الصباح قوم پرست جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کے گھر پہنچ کر انہیں امتناعی حراست میں لے لیا۔
ہڑتال کے لیے اپیل ان قائدین کے ایک اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے کی تھی۔
پیر کو سری نگر، شوپیان اور وادئ کشمیر کے کئی دوسرے علاقوں میں مظاہروں کو دبانے کے لیے حفاظتی دستوں نے ایک مرتبہ پھر طاقت کا استعمال کیا۔ شوپیان میں چھرے والی بندوقوں کی فائرنگ میں تین مزید افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
سری نگر میں اتوار کے روز ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف تاجروں نے ایک مظاہرہ کیا۔ مظاہرین جب اقوام متحدہ کے مبصرین برائے بھارت و پاکستان کے گرمائی صدر مقامات کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تو پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔
ایک اور مظاہرہ علاقائی جماعت عوامی اتحاد کے لیڈر اور ممبر قانون ساز اسمبلی انجنیئر شیخ عبد الرشید کی قیادت میں کیا گیا۔
کشمیر یونیورسٹی کےہوسٹلوں میں مقیم طلبہ اور طالبات نے بھی ایک احتجاجي جلوس نکالا تو پولیس نے ان پر اشک آور گیس چھوڑی۔
ورادئ کشمیر میں موبائل فونوں پر دستباب انٹرنیٹ سروسز کو بند کردیا گیا ہے۔ ریل سروسز معطل ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں اور پیر کو ہونے والے بورڈ اور یونیورسٹی سطح کے امتحانات ملتوی کردیے گیے ہیں۔ عہدیدار وں نے اعلان کیا ہے کہ تعلیمی ادارے منگل کو بھی بند رہیں گے جبکہ 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے اتوار سے کی جانے والی دو روزہ ہڑتال کی مدت میں ایک دن کا اضافہ کردیا ہے۔
پولیس اور بھارتی فوج کے عہدیدار وں نے شوپیان اور اننت ناگ میں تین الگ الگ جھڑپوں 13 عسکریت پسندوں اور تین فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کا تعلق حزبِ المجاہدین اور لشکرِ طیبہ سے تھا۔ انہوں نے ان ہلاکتوں کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی مہم کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔
عہدیدار وں نے چار شہریوں کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔ ان میں سے تین شہری حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب شوپیان کے کچھ ڈورہ اور درگڑھ علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران یا ان کے فوراً بعد مقامی باشندوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں کا رخ کیا اور بھارت مخالف مظاہرے لگانے شروع کر دیے۔
عہدیدار کہتے ہیں کہ مظاہرین نےعسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے فوج پر پتھراؤ کیا تھا اور خبر دار کیے جانے کے باوجود باز نہیں آئے۔
ہلاک ہونے والے چوتھے شہری کے بارے میں عہدیدار وں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ درگڑھ کے اُس نجی گھر کا مالک تھا جہاں عسکریت پسند محصور ہو گئے تھے اور وہ فریقین کے درمیان گولیوں کے تبادلے کی زد میں آکر ہلاک ہو ا۔
لیکن ہلاک ہونے والے شخص کے والدین اور بیوی نے الزام لگایا ہے اُسے فوجیوں نے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند ان کے گھر میں نہیں بلکہ ایک پڑوسی کے مکان میں پھنس گئے تھے اور فوجی اس شخص کو اس کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
اس دوران مارے گئے سپاہیوں کو خراجِ عقیدت ادا کرنے کے لیے سری نگر میں بھارتی فوج کی 15 ویں کور کے صدر دفاتر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیاجس میں اعلیٰ فوجی افسران نے ہلاک ہونے والوں کے تابوتوں پر پھول چڑھائے اور انہیں سلامی دی۔