لاهور میں گزشتہ کچھ دنوں سے موسم بدلا بدلا ہے۔ دن کے اوقات میں بھی فضا دھندلائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیات کے کئی ماہرین نے اسموگ کے امکان کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
پیر کے روز ائیر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاهور میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 438 تک پہنچ گئی اور فضائی آلودگی میں بھارتی دارالحکومت دہلی کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔
اس سے پہلے محکمہ ماحولیات پنجاب کے ترجمان نے بیان جاری کیا تھا کہ لاهور سمیت بڑے شہروں میں نومبر کے آغاز میں اسموگ ہو سکتی ہے اور اس کےساتھ ہی حفاظتی تدابیر بھی جاری کی تھیں۔
محکمہ ماحولیات کے ترجمان نسیم الرحمن کا کہنا ہے کہ اسموگ کی صورت میں شہری غیر ضروری سفر کرنے اور باہر نکلنے سے گریز کریں۔ سفر کی صورت میں ہیلمٹ اور ماسک کا استعمال یقینی بنائیں۔ شہری پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے محفوظ رہا جا سکے۔ اسموگ کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے زیادہ دیر باہر رہنے کے بعد پانی سے منہ دھوئیں۔
محکمہ ماحولیات کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس دوران پنجاب بھر میں کوڑے، کھیتوں کی باقيات اور ٹھوس فضلے کو آگ لگانے پر مکمل پابندی ہو گی۔ زرعی اور میونسپل فضلہ کو ماحولیاتی معیار کے مطابق ٹھکانے لگایا جائے گا۔ حد نگاہ میں کمی کی صورت میں فاگ لائٹس کا استعمال کیا جائے۔ دھواں پھیلانے والے کارخانوں اور بھٹوں کو کسی بھی صورت کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ صرف زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہونے والے بھٹے کام کرسکیں گے۔
اس سے پہلے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال 15 سال سے کم عمر کے 6 لاکھ بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سال 2016 میں سانس میں انفیکشن کی وجہ سے 6 لاکھ بچوں کی ہلاکت ہوئی۔ آلودہ ماحول لاکھوں بچوں کے لیے زہرقاتل ثابت ہو رہا ہے۔
کرہ ارض پر ہر دس میں سے نو افراد زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں جس سے 70 لاکھ افراد ہر سال وقت سے پہلے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے مرنے والے بچوں میں ہر دس میں سے ایک بچہ پانچ سال سے کم عمر کا ہوتا ہے۔
فضا میں شامل سلفیٹ اور بلیک کاربن پھیپھڑوں اور دل کے امراض کا سبب بنتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کے بچے اس صورت حال کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔