کراچی: پاکستان میں خواتین جہاں ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں، وہیں فائر فائٹنگ کے شعبے میں ایک پاکستانی خاتون کی خدمات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
شازیہ پروین پاکستان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے فائر فائٹنگ کے شعبے کو اپنایا اور مرد فائر فائٹرز ریسکیو اہلکاروں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
فائر فائٹنگ حادثاتی طور پر لگنےوالی آگ پر قابو پانے کا مشکل کام ہے، جسے مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ مگر، شازیہ پروین بھی مردوں کی طرح آگ کو بجھانے کے اس خطرناک کام کو سرانجام دیتی ہیں۔
اس شعبے کو اختیار کرکے، شازیہ نے پاکستان بھر کی خواتین کو یہ پیغام دیا ہے کہ فائر فائٹنگ کے شعبے میں بھی خواتین خدمات انجام دے سکتی ہیں۔
پاکستان کی پہلی خاتون فائر فائٹر کے طور پر سامنے آنےوالی 25سالہ شازیہ پروین کا تعلق صوبہٴپنجاب کے ضلع وہاڑی سے ہے، جو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے والے 1122 نامی ریسکیو ادارے میں 2010ء میں خاتون ریسکیو ورکر کے طور پر شامل ہوئیں۔
پاکستان کے انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹریبیون' کی رپورٹ کے مطابق، شازیہ کا کہنا ہے کہ 'کچھ خواتین مردوں کے ساتھ کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ مگر ان کے خیال میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں۔
شازیہ کہتی ہیں کہ ’پہلے لوگ مجھے دیکھ کر میری ہنسی اڑاتے کہ ایک خاتون آگ بجھانے مین کیسے مدد دے گی۔ مگر جب میں نے ان کی اہم املاک کو آگ سے بچا لیا تو وہی لوگ میری تعریف کرتے ہیں۔‘
ان کے بقول، خواتین کسی بھی شعبے میں کام کرسکتی ہیں اور اپنی مرضی کا پیشہ چن سکتی ہیں۔
شازیہ نے ’پنجاب ایمرجنسی سینٹر‘ سے باقاعدہ ریسکیو کی تربیت لے رکھی ہے۔
اس حوالے سے شازیہ کا کہنا ہے کہ ٹریننگ میں 600 مردوں میں وہ واحد خاتون ٹرینی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اُنھوں نے تیراکی اور رسیوں کی مدد سے عمارتوں پر چڑھنے کی ٹریننگ لے رکھی ہے۔