رسائی کے لنکس

کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر کنٹرول کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت


پاکستانی پولیس اہل کار لاہور میں واقع کالعدم جماعت الدعوۃ کے صدر دفتر کے باہر تعینات ہیں۔(فائل فوٹو)
پاکستانی پولیس اہل کار لاہور میں واقع کالعدم جماعت الدعوۃ کے صدر دفتر کے باہر تعینات ہیں۔(فائل فوٹو)

رحمن ملک کے مطابق کالعدم رہنما اگر نئے ناموں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں تو کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس کے تحت انہیں سزا دی جا سکے لہذا ایسا قانون لانا ہو گا کہ پابند کئے گئے رہنما کو خلاف ورزی پر قابل دست اندازی جرم میں گرفتار کیا جا سکے۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمن ملک نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا قانون بہت کمزور ہے جسے موثر اور مضبوط بنانے کے لئے وہ پارلیمنٹ میں ایک قانونی بل پیش کر رہے ہیں۔

کالعدم جماعتوں اور رہنماؤں کے خلاف حالیہ حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے رحمن ملک کہتے ہیں کہ یہ اقدامات زیادہ موثر اور دیرپا نہیں ہو سکتے کیونکہ انہیں قانون کی پشت پنائی حاصل نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ کالعدم جماعتوں کے خلاف ٹھوس اور دیرپا اقدامات کیے جا سکیں جن سے دنیا کو بھی مطمئن کیا جا سکے تو انسداد دہشت گردی اور کالعدم جماعتوں سے متعلق قوانین میں بہتری لانا ہو گی۔

رحمن ملک کے مطابق کالعدم رہنما اگر نئے ناموں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں تو کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس کے تحت انہیں سزا دی جا سکے لہذا ایسا قانون لانا ہو گا کہ پابند کئے گئے رہنما کو خلاف ورزی پر قابل دست اندازی جرم میں گرفتار کیا جا سکے۔

سابق وزیر داخلہ کا کالعدم جماعتوں کے حوالے سے قانونی بل لانے کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت شدت پسند تنظیموں کے خلاف ملک گیر کارروائی کر رہی ہے اور ان کے اثاثے منجمند کئے جا چکے ہیں۔

پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی میں عالمی برادری کی جانب سے بھی پاکستان پر غیر ریاستی عناصر اور افراد کے خلاف موثر کاروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ماہر قانون اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضی کہتے ہیں کہ عدم ثبوت کے باعث غیر ریاستی تنظیموں کے خلاف کاروائیاں ادھوری رہتی ہیں۔

کامران مرتضیٰ کے مطابق عدم ثبوت کے باعث ایسے عناصر عدالتوں سے سزا نہیں پا سکتے جسے دور کیا جانا چاہئے۔

سابق وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کہتے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائیاں 2002 سے جاری ہیں۔ ان کے مطابق ایف اے ٹی ایف اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے نئے عالمی قوانین کی روشنی میں کالعدم جماعتوں کے بارے میں قوانین کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معید الدین حیدر نے کہا کہ کالعدم جماعتوں کے متعلق نئے قوانین میں کسی قسم کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہئے اور مکمل سیاسی عزم کے ساتھ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جانا چاہئے۔

معین الدین حیدر کے مطابق ماضی میں سیاسی عزم کی کمی رہی اور کچھ عناصر غیر ریاستی تنظیموں کی سرگرمیوں کو جائز سمجھتے تھے لیکن آرمی پبلک اسکول سانحہ کے بعد پوری قوم انتہا پسندوں کے خلاف یکسو ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور انہیں امید ہے ایک پرامن ملک کے طور پر اپنی پہچان بنائے گا تاہم ان کا خیال ہے کہ اگر شدت پسند ہتھیار رکھ کر عام شہری کی طرح زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو دنیا کو اس پر ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہئے۔

عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف نے بھی پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو ناکافی قرار دیا تھا اور کالعدم تنظیموں کو ’کم درجے کا خطرہ‘ قرار دینے پر اپنے 'عدم اطمینان' کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان کی حزب اختلاف اور متعدد مذہبی جماعتیں بھی تواتر سے کالعدم جماعتوں کی نئے ناموں سے جاری سرگرمیوں کو روکنے کے مطالبات کرتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی قومی اسمبلی میں اپنی ایک تقریر میں کالعدم جماعتوں کے خلاف موثر اقدامات نہ اٹھانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG