پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک میں جبری گمشدگیوں کے بعدبازیاب ہونے والے افراد کو کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں طلب کر لیا ہے۔
لاپتا افراد کے معاملے پر غور کرنے کے لیے کمیٹی کے جمعے کو ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ان افراد کے بیانات کے بعد ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ ایسے واقعات کو اب رکنا چاہیے۔
کمیٹی کی سربراہ سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ" کمیٹی ان لوگوں کو بلائے گی جو بازیاب ہو چکے ہیں اور انہیں کہیں گے کہ وہ ان کمیرہ اجلاس کو بتائیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا کیونکہ اب تک یہ ہو رہا ہے کہ جو لوگ اٹھائے جاتے ہیں وہ واپس بھی آ جاتے ہیں لیکن وہ اس بارے میں کچھ بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ "
نسرین جلیل نے کہا کہ ان افراد کو تین ہفتوں کے بعد ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیا جائے گا اور ان کے بقول بعد ازں متعلقہ ادروں کے حکام کو طلب کر کے ان سے اس معاملے پر وضاحت کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
موقر غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بازیاب ہونے والے افراد خوف و ڈر کی وجہ سے شاید یہ نہ بتا پائیں کہ انہیں کس نے اغوا کیا تھا اور کیوں کیا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ " کسی بھی صورت میں وہ نہیں بتائیں ایک آدھ شاید بتا دیے، کوشش تو کرنی چاہیے لیکن ہمارے ہاں جس کے قسم کے حالات ہیں مجھے خاص امید نہیں ہے کہ وہ بتائیں گے کہ انہیں کس نے اغوا کیا تھا۔ "
بلوچستان کی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدا ر نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبے سے لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد صرف 136 ہے اور ان میں سے 120 افراد ایسے ہیں جو مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تک لاپتا ہونے والے افراد میں سے 104 افراد بازیاب ہو چکے ہیں اور کوشش کے باوجود وہ یہ افراد بیان دینے کے لیے تیار نہیں کہ انہیں کس نے اغوا کیا تھا۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملہ کے خلاف انسانی حقوق کے ادارے اور سرگرم کارکن آواز بلند کرتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور گزشتہ سالوں سے یہ معاملہ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ میں زیر بحث چلا آرہا ہے۔
جبری گم شدگیوں سے متعلق اب تک مختلف اعدادوشمار سامنے آتے رہیں تاہم جبری گم شدگیوں سے متعلق حکومت کی طرف سے قائم کردہ انکوئری کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعدادبارہ سو سے زائد ہے۔جبکہ گزشتہ چند سالوں کے دوران متعدد افراد بازیاب بھی ہو چکے ہیں۔
اکثر لاپتا افراد کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی گمشدگی کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں، تاہم حکومت اور انٹیلی جنس حکام جبری گمشدگیوں میں کسی طرح ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔