افغان سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رواں سال کے پہلے تین ماہ میں دہشت گرد حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
یہ بات وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی صورت حال کے بارے میں کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ’فاٹا ریسرچ سینڑ‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 2016ء کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں میں 72 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے آخری تین ماہ میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے 69 واقعات ہوئے جبکہ رواں سال جنوری سے مارچ کے درمیان میں ایسے 119 واقعات ہوئے۔
’فاٹا ریسرچ سینیڑ‘ سے وابستہ سلامتی کے اُمور کے تجزیہ کار عرفان الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گرد تنظیموں نے رواں سال کے آغاز میں اپنی کارروائیاں بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔
"اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کالعدم جماعت الاحرار جو فاٹا میں ایک بڑا سرگرم شدت پسند گروپ ہے اس نے اس سہ ماہی میں (یہاں پر) آپرشین غازی کے نام سے اپنی شدت پسندی کی کارروائیاں شروع کی تھیں اس وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ بعض شدت پسند گروپ دوبارہ ان علاقوں میں منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
"دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جو پاکستانی طالبان کے گروپ ملٹری آپریشن ضرب عضب، خیبر ون اور خیبر ٹو اور انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائیوں کی وجہ سے افغانستان سے منتقل ہو گئے اب وہ وہاں پر منظم ہونے کے بعد دوبارہ سے اپنے نیٹ ورکس فاٹا میں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
عرفان الدین نے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران فاٹا اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے سکیورٹی آپریشن کی وجہ سے ان کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی اور اسی وجہ سے ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا یہ شدت پسند گروپ کمزور تو ہوئے ہیں لیکن اب بھی ان کے بعض حامی ملک کے قبائلی علاقوں اور ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔
تاہم پاکستان کے سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں ان کے مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج نے رواں سال فروری میں ملک بھر میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے آپریشن ردالفساد شروع کیا تھا اور حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریش کے آغاز کے بعد سے اب تک ملک بھر میں وسیع پیمانے پر ہونے والے سکیورٹی آپریشن کے دوران چار ہزار مشتبہ افراد کو گرفتار اور ایک سو سے زائد کو ہلاک کیا گیا۔
تاہم سکیورٹی امورکے بعض تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کی طرف موثر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔